ہوگی۔ فرمایا: اتنے اتنے لے لینا۔اس نے بات مان لی اورآپ رضی اللہ تعالٰی عنہنے اسی وقت اپنے پاس سے کرائے کا زیادہ حصہ ادا کردیا۔پھر مجھے فرمانے لگے: شیخ احمد! اپنی والدہ اور سامان کو یہاں لے آؤ ۔میں والدہ ماجدہ اور سامان کے ساتھ واپس آیا تو اس مصری کو فرمانے لگے: باقی کرایہ تجھے مصر پہنچ کر مل جائے گا۔اس کے بعد آپ رضی اللہ تعالٰی عنہنے سورۂ فاتحہ پڑھی اور اسے ہمارے ساتھ اچھاسلوک کرنے کی تاکید کی ، پھر اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں بھی آپ رضی اللہ تعالٰی عنہکے ساتھ چل پڑا۔ جب ہم مسجد شریف پہنچے توفرمایا: تم مجھ سے پہلے اندر چلے جاؤ،لہٰذا میں مسجد میں داخل ہوااور ان کا انتظار کرنے لگا۔جب نماز کا وقت ہوگیاتو میں نے ان کو ڈھونڈالیکن وہ نظر نہ آئے۔بعدِ نماز بھی میں نے بار بار تلاش کیا مگر نہ ملے۔پھرمیں اس آدمی کے پاس پہنچا جسے وہ کرایہ دے کرآئے تھے۔جب میں نے اس سے آپ کے بارے میں دریافت کیاتو وہ کہنے لگا: میں تو انہیں نہیں پہچانتا اور آج سے پہلے انہیں دیکھا بھی نہیں تھا ،مگر جب وہ میرے پاس تشریف لائے تھے تو مجھ پر ایسا خوف اور اتنی ہیبت طاری ہوئی جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی ۔میں لَوٹ آیااورانہیں دیگر مقامات پر بہت تلاش کیا لیکن وہ نہ مل سکے۔ جب میں حضرت شیخ صفی الدین احمد قَشّاشی قُدِّسَ سرُّہُ الرَّباّنیکی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کو ساری بات بتائی توفرمانے لگے:وہ سیِّدُ الشُہَداء حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہکی رُوحِ پاک ہی تو تھی جو جسمانی شکل میں تمہارے سامنے آئی تھی ۔پھر میں اس آدمی کے پاس پہنچا جس کے ساتھ مصر جانا تھا اور باقی حاجیوں کے ساتھ سفر پر روانہ ہوگیا ۔