ہوئے میں نے انہیں دُرودِ پاک پڑھ کر ایصالِ ثواب کیا ۔ناچ ناچ کر تھک ہار کر جب سویا توخواب کے اندر کیادیکھتا ہوں کہ میرے مرحوم والِدَین بھڑکتی آگ کے گھیرے میں ہیں اور مجھے دیکھ کر چلّا چلّا کر کچھ یوں کہہ رہے ہیں :’’ ہم تیری اسلامی تربیّت کرنے میں کوتاہی کرگئے، ہائے ہماری خرابی! تو ڈانسر اور شرابی بن گیا! اب تیری وجہ سے آگ ہمیں جلا رہی ہے، تُو توبہ کر لے تا کہ تُو بھی عذاب سے بچے اورہم بھی چُھٹیں ۔‘‘ میں خواب میں رونے لگا اورمیری آنکھ کُھل گئی اور میں کافی دیر تک روتا رہا۔ پھر میں حُضُور داتا گنج بخش رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کے مزارِ پُر انوار پر حاضِر ہوا، قدموں کی طرف بیٹھ کررو روکر میں نے داتا صاحب رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ سے فریاد کی: ’’یا داتا! اب آپ ہی مجھے سنبھالئے!‘‘ اتنے میں کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا ، سر اٹھا کر دیکھا تو سفید لباس اور سر پر سبز عمامے میں ملبوس ایک صاحِب تھے ، جو کہ مُشفِقانہ لہجے میں فرمارہے تھے: بیٹا! موت کسی بھی وقت آسکتی ہے ، جلدگناہوں سے توبہ کرلو۔ میں نے پوچھا : میں کہاں جاؤں ؟ مُسکرا کر فرمانے لگے :’’ بابُ المدینہ کراچی آجاؤ۔‘‘یہ کہہ کروہ ایک دم میری نظروں سے اَوجَھل ہوگئے !یہ میری بیداری کا واقِعہ ہے۔
جب میں بابُ المدینہ کراچی پہنچا تو کسی نہ کسی طرح شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطارؔ قادری دامت برکاتہم العالیہکی خدمت میں جاپہنچا ،جب پہلی بار ان کی زیارت کی تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہی تو