بارہ سنگھا اپنی جِن ٹانگوں کو پَتْلی و بدصُورَت دیکھ کر افسوس کر رہا تھا وہی اس کی زِنْدَگی بچانے کے کام آئیں اور جن سینگوں پر اسے ناز تھا وہ اس کی جان کے خاتمے کا سَبَب بن گئے۔ یاد رکھئے! جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے دُنیا میں ہر شے کو اپنی حکمت کے تحت ایک خاص مقصد کے لیے پیدا فرمایا ہے تو ہمیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عطا کردہ ہر نعمت کی قدر کرنی چاہئے اور کبھی بھی کسی نعمت کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے خواہ وہ ایک پتھر ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ مذکورہ بارہ سنگھے کی طرح جو شخص اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عطا کردہ کسی نعمت کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے یا اس کی قدر نہیں کرتاوہ ہمیشہ نقصان اٹھاتا ہے اور بعد میں پچھتاتا ہے مگر اب پچھتائے کیا ہَوت جب چِڑیاں چُگ گئیں کھیت(It is useless to cry over spilt milk)۔ چنانچہ،
اَنْمَول ہیرے
دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ 26 صَفحات پر مشتمل رسالے انمول ہیرے صَفْحَہ 2پر پندرھویں صدی کی عظیم علمی و روحانی شخصیت، شیخ طریقت، امیر اہلسنت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں:ایک بادشاہ اپنے مَصاحبوں کے ساتھ کسی باغ کے قریب سے گزر رہا تھا کہ اس نے