پر آیا اور پانی پیتے ہوئے جب اسے پانی میں اپنے خوبصورت سینگوں (Horns)کا عکس نظر آیا تو فخر و اِنْبِسَاط سے وہ پھولا نہ سمایا مگر جب اس کی نِگاہیں اپنی پَتْلی اور سُوکھِی ہوئی ٹانگوں پر پڑیں تو اس کی ساری خُوشی کافور (خَتْم) ہو گئی اور وہ حسرت سے سوچنے لگا کہ اے کاش! اس کی ٹانگیں بھی اس کے سینگوں کی طرح خوبصورت اور موٹی ہوتیں تو کتنا اچھا ہوتا۔ ابھی وہ انہی خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ اسے شکاری کتوں (Hounds)کے بھونکنے کی آواز سنائی دی، خطرہ محسوس کرتے ہی وہ بھاگ کھڑا ہوا اور چھپنے کے لیے جنگل کی راہ لی۔ شکاری کتوں نے بھی اسے دیکھ لیا لہٰذا وہ بھی اس کے پیچھے بھاگے، بارہ سنگھا اس تیزی سے بھاگا کہ اس نے مڑ کر بھی نہ دیکھا اور سیدھا جنگل میں جا گھسا مگر اس کی بدقسمتی (Bad luck)کہ جن سینگوں پر تھوڑی دیر قبل فخر کر رہا تھا وہ ایک جھاڑی میں پھنس گئے۔ اس نے سینگوں کو جھاڑی سے نکالنے کی کافی کوشِش کی مگر کوئی فائدہ نہ ہوا اور آخر کار شکاری کتے اس کے سر پر جاپہنچے اور یوں وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
کوئی چیز بے مقصد نہیں
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس حکایت سے دو باتیں معلوم ہوئیں:پہلی یہ کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی (All that glitters is not gold) اور دوسری یہ کہاللہ عَزَّ وَجَلَّ نے دُنیا میں ہر شے کو ایک خاص حکمت کے تحت پیدا فرمایا ہے، وہ بارہ