اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ۬ۙ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ٪﴿۳﴾ (پ۳۰، العصر: ۳)
ترجمۂ کنز الایمان: مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صَبْر کی وصیت کی۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ! ہم مسلمان ہیں، ہمارااللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اُس کے تمام رسولوں پر،اس کی کتابوں، فرشتوں اور قِیامَت کے دن پر ایمان ہےمگر یاد رکھئے! صِرْف ایمان لانا ہی کافی نہیں بلکہ ایمان کی حِفاظَت کی فِکْر بھی اِنْتِہائی ضَرُوری ہےکہ بسا اوقات گُناہوں کی نحوست کے سَبَب ایمان سَلْب کرلیا جاتا ہے اور اگر خُدانَخَواسَتہ ایمان ہی سَلْب ہوگیا تو سب کِیا کَرایا اکارَت جائے گا۔ لہٰذا ایمان کے ساتھ ساتھ فرائض وواجبات کی ادائیگی اور گناہ ومَعْصِیَت سے اِجْتِناب بھی ضَرُوری ہے۔یہی وجہ ہے کہ سورۂ عصر کی تیسری آیتِ مبارکہ اور اس کی تفسیر سے معلوم ہوا کہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور ایک دوسرے کو حق یعنی ایمان و عملِ صالح کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو ان تکلیفوں اور مشقّتوں پر صبر کی وصیت کی جو راہِ خدا میں نیکی کی دعوت دیتے ہوئے پیش آئیں تو ایسے لوگ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے فضل و کرم سے کس طرح محروم ہو