Brailvi Books

مقصدِ حیات
26 - 56
کہ اس کی عمر کے خاتمہ میں صرف 30 سال باقی رہ گئے ہیں۔اس لیے کہ ہم ہر شے کو عقل کے ترازو میں تولنے کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ جو شے ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتی ہے صرف اسی کو تسلیم کرتے ہیں اور جو چیز آنکھوں سے اَوجھل ہوتی ہے اس پر یقین مشکل ہی سے آتا ہے۔ کیونکہ ہماری سوچوں کے مَحْور تبدیل ہو چکے ہیں، ہم دُنیا اور اس کی فانی زِنْدَگی کی لذتوں پر تو یقین رکھتے ہیں کیونکہ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں مگر آخرت اور اس کی نعمتوں سے اس لیے منہ موڑے ہوئے ہیں کہ وہ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ موت سے غفلت نے نہ صرف ہمارے ایمان بالغیب کو کمزور کر دیا ہے بلکہ ہمیں اپنے مقصدِ حیات سے بھی دور کر دیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارا شمار خسارہ پانے والوں میں نہ کیا جائے؟جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: 
وَالْعَصْرِ ۙ﴿۱﴾ اِنَّ الْاِنۡسٰنَ لَفِیۡ خُسْرٍ ۙ﴿۲﴾  ترجمۂ کنز الایمان: بیشک آدمی ضرور نقصان میں ہے۔ 
(پ۳۰، العصر: ۲)
کیاتمام انسان نقصان میں ہیں؟
پیارے اسلامی بھائیو! کیا سارے آدمی نقصان میں ہیں؟اس سوال کا جواب سورۂ عصر کی تیسری آیتِ مبارکہ میں کچھ یوں دیا گیا ہے: