ہے ’’ mوَالْعَصْرِ ۙ﴿۱﴾ اِنَّ الْاِنۡسٰنَ لَفِیۡ خُسْرٍ ۙ﴿۲﴾ ‘‘ کا مطلب۔ عمر کی جو مدّت انسان کو دی گئی ہے وہ برف کے پگھلنے کی طرح تیزی سے ختم ہو رہی ہے، اگر یہ اس کو ضائع کر دے گا یا غلط کاموں میں مگن ہو کر گزار دے گا تو یقیناً یہ خسارہ اٹھانے والوں میں شمار ہوگا۔ (1)
زِنْدَگی کا سفر جاری ہے یا موت کا؟
پیارے اسلامی بھائیو!جس طرح کشتی سوار کو لیے منزل کی جانِب رَواں دَواں ہوتی ہے۔ اسی طرح زِنْدَگی بھی بندے کو ہر لمحہ اس کی منزل یعنی قبر کے قریب لیے جا رہی ہے لیکن وہ اس بات سے غافل ہے۔چنانچہ،
دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 1124صَفحات پر مشتمل کتاب احیاء العلوم جلد اوّل صَفْحَہ 981پر ہے:حجۃ الاسلام حضرت سَیِّدُنا امام محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالوَالِی فرماتے ہیں:اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے زمین کو اپنے بندوں کے تابع اس لیے نہیں کیا کہ وہ بلند و بالا مکانوں (کو دائمی ٹھکانا سمجھ کر اس) میں سکونت پذیر ہو جائیں بلکہ اس لیے تابع بنایا ہے کہ وہ اسے (مسافرکی طرح) قیام گاہ جان کر اس سے اتنا زادِ راہ لیں جو وطنِ اصلی (یعنی آخرت) کے سفر میں ان کے کام آئے، اس کے
(1) تفسیر رازی، پ۳۰، العصر، تحت الآیۃ۱، الجزء الثانی والثلاثون، ۱۱ / ۲۷۸