میں نہ صرف خُود ڈانس کرتی بلکہ دوسری لڑکیوں کوبھی ڈانڈیاسکھاکر اپنے ساتھ نچوایا کرتی تھی ۔ڈھیروں گانے مجھے زبانی یا د تھے۔ آواز چونکہ اچھی تھی اس لئے میری سہیلیاں مجھ سے اکثر گانا سنانے کی فرمائش کیا کرتیں۔بدقسمتی سے گھر میں T.V بہت دیکھا جاتا تھا۔جس کی وجہ سے میں گناہوں کی دلدل میں دھنستی چلی گئی۔افسوس کہ میں اپنی زندگی کے قیمتی لمحات عذاباتِ جہنم کی حقدار بننے میں صرف کررہی تھی ۔
رَبِیْعُ النُّورشریف کی ایک سہانی شام تھی ۔نمازِ مغرب کے بعد میرے بڑے بھائی گھر آئے توان کے ہاتھ میں امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے بیانات کے کیسٹس تھے۔ایک بیان کا نام ''قبر کی پہلی رات'' تھا۔قبر کا مرحلہ کس قدر کٹھن ہے ،اِس کا احساس مجھے یہ بیان سن کر ہوا ۔ مگر افسوس کہ میرے دل پر گناہوں کی لذت کااس قدرغلبہ تھا کہ مجھ میں کوئی خاص تبدیلی نہ آئی ۔ ہاں!اتنا فرق ضرور پڑا کہ اب مجھے گناہوں پر ندامت ہونے لگی ۔
کچھ ہی دن بعد پڑوس میں دعوتِ اسلامی کی ذمہ دار اسلامی بہنوں نے بسلسلہ ''گیارہویں شریف'' اجتماعِ ذکرو نعت کا اہتمام کیا۔مجھے بھی شرکت کی دعوت دی گئی ۔ ''قبر کی پہلی رات'' سن کر میرا دل پہلے ہی چوٹ کھاچکاتھا ،چنانچہ میں نے زندگی میں پہلی باراجتماعِ ذکرو نعت میں جانے کا ارادہ کیا ۔ مگرافسوس کہ