گئی صورت میں کمپنی پہلے سروس فراہم کررہی ہے اور پھر پیسے وصول کررہی ہے اور یہ دونوں طریقے جائز ہیں یعنی منفعت فراہم کرنے سے پہلے عوض لے لینا بھی درست ہے اور منفعت فراہم کرنے کے بعد عوض لینایہ بھی درست ہے۔ اگرچہ پہلی صورت میں عوض کم وصول کیا جارہا ہے اور دوسری صورت میں عوض زیادہ لیا جارہا ہے اور کمپنی کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ پیشگی سروس عام ریٹ سے ہٹ کر کچھ زیادہ قیمت پر فراہم کرے جیسے نقد و اُدھار کی قیمتوں میں فرق کرنا جائز ہوتا ہے نیز صارف کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ بعد میں ادائیگی کی صورت میں یہ سروس مجھے عام قیمت سے ہٹ کر کچھ زیادہ قیمت پر فراہم کی جائے گی اور وہ اس بات پر راضی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
البتہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس سہولت کو لون (Loan) کا نام نہ دیا جائے کیونکہ اس سے یہ شبہ لاحق ہوتا ہے کہ کمپنی قرض دے کر اس پر نفع وصول کررہی ہے اور بعض لوگوں نے اسے سود سمجھ بھی لیا حالانکہ اس کو سود سمجھنا غلط ہے کیونکہ کمپنی یہاں پیسے نہیں بلکہ سروس دے رہی ہے۔
تنویر الابصار میں ہے : ’’تملیک نفع بعوض‘‘یعنی کسی شے کے نفع کا عوض کے بدلے مالک بنادینا اجارہ ہے۔(الدرالمختار مع ردالمحتار،ج9،ص32 مطبوعہ کوئٹہ)
ہدایہ میں ہے: ’’تستحق باحدی معانی ثلاثۃ اما بشرط التعجیل او بالتعجیل من غیر شرط او باستیفاء المعقود علیہ‘‘ یعنی تین میں سے ایک صورت کے پائے جانے سے مؤجر اجرت کا مستحق ہوگا، پہلے دینے کی شرط کرلے، یا بغیر شرط کے پہلے اجرت وصول کرلے یامستاجر، اجارہ پر لی گئی چیز سے فائدہ اُٹھالے۔(ہدایہ،ج3،ص297 مطبوعہ کراچی)
امام کمال الدین ابن ہمام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہفرماتے ہیں:’’الثمن علی تقدیر النقد الفا وعلی تقدیر النسیئۃ الفین لیس فی معنی الربا‘‘ ترجمہ: نقد کی صورت میں ثمن ایک ہزار ہونا اور اُدھار کی صورت میں دوہزار ہونا سود کے حکم میں نہیں۔(فتح القدیر،ج6،ص81 مطبوعہ کوئٹہ )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَمُ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ