مدنی کاموں کی تقسیم کے تقاضے |
وغیرہ کی پابندی کے لئے بھی شرعی تقاضوں کے مطابق ہو تاکہ ذِمّہ داران کو پابند کر کے دیگر اسلامی بھائیوں کو بھی پابندبنایا جا سکے۔چنانچہ حضرت سَیِّدُناعمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اُنہوں نے اپنے حُکّام(حُک۔کام) یعنی افسران کو لکھا کہ میرے نزدیک سارے کاموں سے زیادہ اہم نماز ہے، جس نے اِسے محفوظ رکھا اور اِس کی پابندی کی، اُس نے اپنا دین محفوظ رکھا اور جس نے اِسے ضائِع کردیا تو وہ نماز کے سوا کو بہت ضائِع کریگا۔
(المؤطاء لامام مالک،کتاب وقوت الصلاۃ،الحدیث۶،ج۱،ص۳۵)
اس کے تحت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان لکھتے ہیں: ''یعنی سَلطنت کے کام ،ملکی انتظام، نماز کے بعد ہیں ،جب نماز کا وقت آجائے تو سارے ہی کام ویسے چھوڑ دو ۔اِس سے د و مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ سُلطانِ اسلام کو چاہیے کہ رِعایا کے دینی حالات سنبھالے صرف دُنیا پر نظر نہ رکھے۔ دوسرے یہ کہ بڑوں کو سنبھا لو چھوٹے خود ہی سنبھل جائیں گے اِسی لئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حُکّام کوخُصُوصِیت سے مُخاطب فرمایا ۔(مِرْاٰۃ المناجیح ،ج۱، ص ۳۷۶) لہٰذا ماتحت اور نئے اسلامی بھائیوں کو روز فکرِ مدینہ کے ذریعے مدنی انعامات کا عامل بنانے اور ہر مدنی ماہ کے ابتدائی دس(10)دن کے اندراندر ذِمہ