Brailvi Books

مدنی کاموں کی تقسیم
34 - 59
معاملہ اس کی پسند کے مطابق کر دیتا ہے ۔
(المستطرف ،ج ۳ ،ص ۲۴۸)
فرمانِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
ہمارے آقا اعلیٰ حضرت ،مجدِد دین وملت ، امام اہلسنت الشاہ احمد رضا خان لیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں ،''امت کے لیے فا ئد ئہ مشورہ یہ ہے کہ تلاحق ِاَنظار واَفکار (یعنی نظریات کے باہم ملنے )سے بارہا وہ بات ظاہرہوتی ہے کہ صاحبِ رائے کی نظر میں نہ تھی۔''
 (فتاویٰ رضویہ جديد ،ج۱۸، ص۴۹۱)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دینی و دنیا وی امور میں مشورے کی بڑی اہمیت و ضرورت اور نفع اندوزی و برکت ہے۔ ایک شخص کی رائے اس کچے دھاگے کی مثل ہے جس سے کو ئی وزنی چیز نہیں اٹھا ئی جاسکتی مگر جب مشورے کے ذریعے چند آراء مل گئیں تو اس مضبوط رسی کی طرح ہو گئیں جس سے بھاری چیزیں بھی باندھ کر اٹھائی جاسکتی ہیں۔چنانچہ شخصِ واحد کی رائے کے مقابلے میں مشورے کے ذریعے انتخاب کر دہ رائے درستی و صواب تک پہنچنے میں زیادہ کارگر رہتی ہے اور اگر بالفرض وہ(منتخب رائے ) مقصود و مطلوب تک نہ بھی پہنچائے اور نتیجے میں درستی نہ بھی حاصل ہو تو بھی مشورہ کر نے والا شرمندگی و ندامت اور طعنہ زنی و ملامت سے محفوظ و مامون رہتا ہے کیونکہ معاملہ سب کی رائے سے طے پایا تھا ۔ 

یہاں ایک اَعرابی کا قول بہت درست واقع ہو تا ہے کہ کو ئی مددگار مشورے سے بڑھ کر قوی نہیں کیونکہ مشورے کے بعد کو ئی کام سرانجام دینے سے ناکامی و نقصان کی صورت میں مشورہ دینے والے ممُِدّو مُعاوِن ہو کر نقصان پورا کر نے میں
Flag Counter