مدنی آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے روشن فیصلے |
کے ناقلین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حارث بن سویدوہ ہیں جنہوں نے مجذَّر بن زیادکوقتل کیاتھاپس رسولِ پاک،صاحبِ لولاک،سَیَّاحِ اَفلاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں قتل کرنے کا حکم فرمايا۔''
یہ مذکورہ فیصلہ حقیقت اور باطن پراطلاع ہونے کے تقاضے کے مطابق تھاکیونکہ اس میں وارث کی طرف سے نہ توقصاص کادعویٰ کيا گيا،نہ دِیت قبول کی گئی اورنہ ہی ورثاء میں سے کسی کے نابالغ ہونے کی بناء پراس کے بالغ ہونے کے لئے تاخیرواقع ہوئی۔
باوجودیہ کہ بیان کردہ تمام اُمورشریعت کے تقاضوں میں سے ہیں۔ مگر سرکارِ دوعالم،نورِ مجسَّم ،شاہِ بنی آدم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس فیصلے کونافذفرمانے کے لئےبنفسِ نفیس(یعنی بذاتِ خود)سوارہوکرتشریف لائے حالانکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے قصاص کے واقعات میں جتنے فیصلے فرمائے کبھی ایسانہ کیابلکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھریامسجد نبوی علیٰ صاحبھاالصلوٰۃ والسلام میں تشریف فرماہوتے، وارث آتا،قتل کا دعویٰ کرتا،اسے ثابت کرتاپھراگروہ قصاص کا مطالبہ کرتاتورسولِ اَکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
۱؎ التمہید لمافی الموطأ من المعانی والاسانید للحافظ ابی عمر بن عبدالبر (المتوفی۴۶۳ھ)(کشف الظنون،ج۱،ص۴۸۴)