مدنی آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے روشن فیصلے |
علامہ ابن سعدرحمۃاللہ تعالیٰ علیہ۱؎ (230-168ھ)''اَلطَّبَقَات۲؎''میں فرماتے ہیں کہ محمدبن عمر واقدی نے اپنے شیوخ سے روایت کرتے ہوئے ہمیں خبردی کہ''مجذَّربن زیاد۳؎نے زمانہ جاہلیت میں کی رنجش کے سبب سویدبن صامت پر قابو پا کراسے قتل کردیااوریہ اسلام سے پہلے کاواقعہ ہے۔ جب نبئ مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم،شاہ ِبنی آدم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منور ہ تشریف لائے توحارث بن سوید اور مجذر بن زیاد نے اسلام قبول کرلیا۔ دونوں بد ر کی لڑائی میں شريك ہوئے۔حارث جنگ میں مجذر کوتلاش کرنے لگے۔ تاکہ انہیں قتل کر کے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لیں لیکن انہیں موقع نہ ملا۔
پھرغزوہ اُحد کا دن آیامسلمانوں نے نقصان اٹھانے کے بعد دوبارہ حملہ کیا تو حار ث مجذَّر کے پیچھے سے آئے اور ان کی گردن اُڑادی۔جب رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ
۱؎ حافظ الحدیث ، المحدث ، ابوعبداللہ محمد بن سعد بن منیع الزھری ، البصری آپ علیہ الرحمہ بصرہ میں پیدا ہوئے اور بغداد میں رہائش اختیار فرمائی اور جمادی الآخر میں آپ کا وصال ہوا ،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے آثار میں سے، طبقات الصحابہ المعروف بطبقات ابن سعد ہے ۔ (معجم المؤلفین،ج۳،ص۳۱۳،الاعلام للزرکلی،ج۶، ص۱۳۶) ۲؎ طبقات الصحابہ والتا بیعن لا بی عبداللہ محمد بن سعد الزھری ، البصری ،اولا اپنے زمانہ میں آپ نے اس کی ۱۵ جلدیں لکھیں پھر اس میں سے انتخاب کر کے ۱۵ جلدوں سے کم کر دی گئی ۔ (کشف الظنون، ج۲، ص۱۱۰۳) ۳؎ المجذّر بن زیاد بن عمرو بن اخرم البلوی (المتوفی۳ھ)، صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سے ہیں انہوں نے زمانہ جاھلیت میں سویدبن صامت کو قتل کیا ان کے نام کے بارے میں دوقول ہیں:ایک عبداللہ او ردوسرا مجذّر کاہے ، غزوۂ اُحد کے دن شہید ہوئے،حارث بن سوید بن صامت نے ان کو قتل کیا۔ (الاعلام للزرکلی،ج۵،ص۲۷۸)
ناقلین کایہ ''اتفاق''جسے ابن اثیر علیہ رحمۃ اللہ الکبیر نے ذکرکیاہے،یہ اس بات کاتقاضہ کرتاہے کہ اس روایت پرحدیثِ صحیح کاحکم لگایاجائے اگرچہ اس کی سند صحیح کی شرط پر نہیں جیساکہ علمِ اصولِ حدیث میں قاعدہ مقررہے۔اس بات کو علامہ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (463-368ھ) نے ''اَلتَّمْہِیْد ۱؎''میں اوردیگرعلماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نےذکرکیاہے ۔