مدنی آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے روشن فیصلے |
حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:''میں اسے قتل کروں گا ۔''چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد میں داخل ہوئے مگر وہ نمازمیں کھڑا تھا ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوچا کہ کیا میں ایسے شخص کو قتل کرد وں جو نماز ادا کر رہا ہے حالانکہ سرکارِ مدینہ ،راحتِ ِقلب وسینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں نمازیوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے؟
سرکارِ ابد قرار، شافعِ روزِشمار،ہم بے کسوں کے مددگارصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ ارشادفرمایا:''کون ہے جو اسے قتل کرے؟''حضرت سیدنا عمرِفارو ق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: ''یا رسولَ اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم!مَیں ۔'' پس جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد میں داخل ہوئے تووہ سجدے میں تھا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی (اپنے دل میں)وہی بات کہی جوحضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہی تھی۔ مزید یہ بھی کہاکہ'' مَیں ضرور واپس لوٹوں گا کیونکہ وہ(يعنی سيدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بھی واپس چلے گئے تھے جو مجھ سے بہترہیں۔نبئ پاک، صاحب ِ لولاک،سیاحِ اَفلاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:''اے عمر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)!ٹھہرو(اوربتاؤکيا ہوا) تو حضرت سیدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سارامعاملہ عرض کرديا۔
تاجدارِ مدینہ،فیض گنجینہ،باعثِ نزولِ سکینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے پھر ارشاد فرمایا:''کون ہے جو اِس کو قتل کرے ؟''حضرت سیدنا علی المرتضی کَرَّمَ اللہُ تَعَالیٰ وَجْہَہ، الْکَرِیْم نے عرض کی:''یا رسولَ اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم !مَیں اسے قتل کرو ں گا۔'' تونبئ کریم ،رء وف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:'' اگر تم نے اسے پالیا تو ضرور قتل کردوگے ۔''چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد میں داخل ہوئے لیکن وہ جا چکا تھا ۔
(مسندابی یعلٰی،مسندابی بکرالصدیق،الحدیث:۸۵،ج۱،ص۵۹،بتغیر)