Brailvi Books

مدنی آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے روشن فیصلے
41 - 105
    اس حدیثِ پاک سے ہم نے گمان کیا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم صرف علمِ الٰہی عزوجل میں نبی تھے جبکہ ظاہر ہوگیا کہ ایسا مفہوم لینا اس حدیثِ پاک میں زیادتی اور تحریف ہے جیسا کہ ہم نے اس کی شرح بیان کردی ہے۔(یہ علامہ سبکی علیہ رحمۃ اللہ القوی کا کلام ہے ۔)
    سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار باذنِ پروردگارعزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان عالیشان میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو اس زمانے میں مبعوث فرمایاجاتاتو ان اوقات میں اپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت وہ ہی ہوتی جو تمام انبیاء کرام علیہم السلام ساتھ لائے تھے اور اسی شریعت کے مطابق وہ اُمتیں عمل پیرا ہوتیں۔ اس اُصول کے مطابق اگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم حضرت سیدنا موسیٰ اور حضرت سیدنا خضر علیہماالسلام کے زمانے میں مبعوث فرمائے جاتے تو حضرت سيدناموسیٰ علیہ السلام کی لائی ہو ئی شريعت آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہی کی شريعت ہوتی اور حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیٰ نبیناو علیہ الصلوٰۃو السلام ظاہر اور شریعت کے مطابق فیصلہ فرمایاکرتے تھے اور حضرت سیدنا خضرعلیہ السلام کی اُمت کے لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت وہی ہوتی جس میں حضرت سیدنا خضر علیہ السلام باطن اور حقیقت کے مطابق فیصلہ فرمايا کرتے تھے ۔
    جب معاملہ اس طر ح ہے تو پھر سرکارِ دوعالم،نورِ مجسَّم،شاہِ بنی آدم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے وجودِ مسعود اوراعلانِ نبوت کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے یہ دونوں اُمور(یعنی ظاہرو باطن کے مطابق فیصلہ فرمانا)کیونکر بعید ہوسکتے ہيں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بذاتِ خود ان دونوں کو سر انجام دیتے اسے کوئی بھی بعید از قیاس قرارنہیں
Flag Counter