مدنی آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے روشن فیصلے |
اگربالفرض حضور نبئ مکرم،رسولِ معظّم،شاہِ بنی آدم صلي اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی آمد حضرت سیدناآدم،سیدنانوح،سیدناابراہیم،سیدناموسیٰ،اورسیدناعیسیٰ علیہم الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں ہوتی تواُن پر اور اُن کی امتوں پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ بابرکات پر ایمان لانا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کرناواجب ہوتا،اسی لئے اللہ عزوجل نے ان سے پختہ وعدہ لیاپس آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم معنوی طور پر ان کے نبی ورسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہيں، اگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی آمدان کے زمانہ میں ہوتی تو بلاشبہ ان پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اِتباع لازم ہوتی۔
اسی وجہ سے حضرت سیدنا عیسیٰ روح اللہ علیٰ نبیناو علیہ الصلوٰۃو السلام آخری زمانہ میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت پرآئیں گے حالانکہ وہ مکرّم نبی ہیں۔وہ ہمارے پیارے نبی محمدِمصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت ، قرآن وسنت اور اس کے اَوامرونواہی (يعنی شريعت نے جن باتوں کا حکم ديا اورجن سے منع فرمايا)کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے۔ رسولِ اَکرم،نورِ مجسَّم،شاہِ بنی آدم صلي اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے ان کا تعلق اسی طرح ہوگا جس طرح ساری اُمت کاہے ،حالانکہ آپ علیہ السلام مکرّم نبی ہی ہوں گے اس سے آپ علیہ السلام کے کمالِ نبوت میں کوئی نَقص نہیں آئے گا۔
یوں ہی اگرسرکارِمدینہ ،قرارِقلب وسینہ ،فیض گنجینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت سیدناعیسیٰ علیہ السلام ، حضرت سیدناموسیٰ ،حضرت سیدنا ابراہیم ،حضرت سیدنانوح یاحضرت سیدناآدم علیٰ نبیناو علیہم الصلوٰۃو السلام میں سے کسی کے زمانہ میں مبعوث فرمایا جاتا تو پھر بھی وہ سب کے سب اپنی اُمتو ں کے لئے نبی اور رسول ہی ہوتے جبکہ حضور نبئ کریم