مدنی آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے روشن فیصلے |
تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کریں کیونکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اسی بات کا حکم فرماتے ہیں جس کااللہ عزوجل آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کوحکم فرماتاہے اور یہ دونوں خصوصیات شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال، دافِعِ رنج و مَلال صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی اور کو حاصل نہیں۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے وصالِ ظاہری کے بعددوسری خصوصیت کا باب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بندہو گیاجبکہ پہلی خصوصیت جس میں گالی دینے والے کے قتل کا حکم ہے وہ بندنہیں ہوا،پس اَئمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ان دواحکام کوپورا کرنے میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے قائم مقام ہیں۔
شیخ تقی الدین سبکی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا خضر علیہ السلام نے اس لڑکے کو کافرانہ فطرت کی وجہ سے قتل کردیاتھا تو یہ آپ علیہ السلام کے ساتھ خاص ہے کیونکہ شریعت کی روسے کسی بچے کو قتل کرنااور وہ بھی اس کے مسلمان والدین کے سامنے کسی صورت ميں جائز نہیں اگر فرض بھی کرلیں کہ اللہ عزوجل نے حضرت سیدنا خضر علیہ السلام کی طرح بعض اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کوبچے کے حال کے متعلق بتا دیا ہو تو پھربھی شریعت مطہرہ کی رو سے اس بچے کو قتل کرنا جائز نہیں۔
حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے متعلق ہے کہ جب نجدہ الحروری ۱ ؎ نے انہیں ایک عریضہ لکھا جس میں اس نے سوال پو چھا کہ کیا وہ بچوں کو قتل کرسکتا ہے؟تو حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے لکھ کر بھیجا :''اگر تُو خضرہے اور مؤمن
۱ ؎ نجدہ بن عامر الحروری (۳۶تا ۶۹ھ) ایک قول یہ ہے کہ ۷۲ہجری میں خارجی ہونے کی وجہ سے سیدنا عبداللہ بن زبير رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اصحاب نے اسے قتل کیا ۔(مرأۃ الجنان،ج۱،ص۱۱۶، الاعلام للزرکلی ج۸،ص۱۰)