مدنی آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے روشن فیصلے |
نے سیدنا امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما ۱ ؎(241-164ھ) سے حضرت سيدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فرمان کے متعلق سوال کیا کہ جب ایک شخص نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غصہ دلایاتو حضرت سیدنا ابو برزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی :'' کیا مَیں اسے رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دینے کی وجہ سے قتل نہ کردوں؟آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :''نہیں،اس لئے کہ یہ حکم دینارسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کے لئے جائز نہیں ۔ ''
سیدناامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ حضرت سيدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے اس وقت تک قتل کرناجائز نہ تھاجب تک کہ فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق تین باتو ں میں سے ایک بات نہ پائی جاتی ۔
(۱) ایمان کے بعد کفر اختیار کرنا(۲)احصان(يعنی شادی)کے بعدزناکرنااور (۳) کسی کوناحق قتل کرنا۔
(سنن ابی داؤد،کتاب الحدود،باب الحکم فی من سبّ النبی صلّی اللّہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم،الحدیث: ۳ ۶ ۳ ۴ ، ج۴،ص۱۷۳،بدون ''بغیر الثلاثۃ'' )
جبکہ نبئ کریم ،رء ُوف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو اختیار تھا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ان تین باتوں کے نہ پائے جانے کے باوجود بھی اس کے قتل کا حکم دے دیں۔لہذایہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص میں سے ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس کے قتل کا حکم بھی دے سکتے ہیں جس کا ایسا کوئی سبب لوگو ں کو معلوم نہ ہو جواس کے قتل کو جائز قرار دے ۔ پس لوگو ں پر لازم ہے کہ وہ اس فیصلے پر آپ صلی اللہ
؎ امام الحدیث والفقہ،امام المذہب الحنبلی ابو عبداللہ احمد بن محمد بن حنبل الشیبانی،البغدادی ،آپ کی مایہ نازل تصانیف ، المسند،کتاب الزھد، المناسک ، وغیرہ ہیں۔ (معجم المؤلفین،ج۱،ص۲۶۱، الاعلام لزرکلی،ج۱ ،ص۲۰۳)