حضرت سیِّدُنااما م محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی نے ابتدائی تعلیم اپنے شہرمیں حاصل کی اورفقہ کی کتابیں حضرت احمد بن محمد راذکانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے پڑھیں۔ پھر 20 سال سے کم عمر میں جرجان میں امام ابو نصر اسماعیلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پھر طوس واپس تشریف لائے اورتین سال وہیں ٹھہرے رہے۔ اس کے بعد۴۷۳ھـ نیشا پور میں امام الحرمین امام جوینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں زانوئے تلمذ طے کیا اور ان سے اصولِ دین، اختلافی مسائل، مناظرہ، منطق ، حکمت اور فلسفہ وغیرہ میں مہارتِ تامہ حاصل کی اور ان میں سے ہر فن میں بہترین اور مدلَّل کتب تصنیف فرمائیں۔(ایک موقع پر امام الحرمین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ ارشادفرمایاکہ''غزالی،علم کے دریائے ذخّارہیں۔'')
آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے چند مشہور اسا تذہ کے نام یہ ہيں:فقہ میں علامہ احمد بن محمد راذکانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، امام ابونصر اسماعیلی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ، امام الحرمین ابو المعالی امام جوینیرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اورحافظ عمر بن ابی الحسن رواسی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تصوف میں ابو علی فضل بن محمد بن علی فارمدی طوسی۔اسی طرح آپ کے مشائخ میں یوسف سجاج، ابو سہل محمد بن احمد عبید اللہ حفصی مروزی، حاکم ابوالفتح نصر بن علی بن احمد حاکمی طوسی، ابو محمد عبد اللہ بن محمد بن احمد خواری، محمد بن یحیٰی، ابن محمد سجاعی زوزنی،حافظ ابوالفتیان عمر بن ابی الحسن رؤاسی دھستانی، نصر بن ابراہیم مقدسی وغیرہ شامل ہیں۔اورعلمِ کلام وجدل میں آپ ر حمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مشائخ کے بارے ميں علم نہ ہوسکا اور فلفسہ میں آپ کا کوئی استاذ نہ تھا جیسا کہ اپنی کتاب المنقذ من الضلال میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے خود صراحت فرمائی ہے ۔