ہوئے فرماتے ہیں:(1) اِلتِزامِ کفر یعنی ضَروریاتِ دین میں سے کسی ایک چیز کا بھی خِلاف کرنا۔چاہے وہ خلاف کرنے والا بظاہر اسلام کا کیسا ہی شیدائی بنتا ہو اور بے شک کفر کے نام سے چِڑتا ہو مگر اس پر حکمِ کفر ہے اور وہ اسلام سے خارج ہے۔ جیسا کہ نَیچری فرقہ والے جو کہ بظاہر اسلام اور ملّتِ اسلامیہ کی مَحَبتَّوں کا خوب دم بھرتے اور بڑھ چڑھ کر اپنے آپ کومسلمانوں میں کَھپاتے ہیں مگرکئی ضَرور یا تِ دین کا خلاف کرتے ہیں مَثَلاً ملائکہ ، جِنّات ، شیطان، آسمان، جنّت ، دوزخ اور معجزات انبیاء ِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے وہ مَعانی جو کہ ہمارے مکّی مَدَنی آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بتواتُر ثابِت ہیں اور سبھی اہلِ اسلام کا جن پر اتِّفاق ہے ان کو تسلیم کرنے کے بجائے اُلٹی سیدھی تاویلوں کے ذریعے اپنے من گھڑت جُداگانہ معنیٰ بیان کرتے ہیں۔ لہٰذا نَیچریوں کو ان کے محبّتِ اسلام کے دعوے ہرگز کفر سے نہیں بچا سکتے (2)لُزُومِ کُفر عینِ کُفر تو نہیں ہو تا مگر کفر تک لے جانے والا ہوتا ہے۔ یعنی کلام کا انجام اور حکم کا لازم کفرِ حقیقی ہے۔ مراد یہ کہ اگر مُقَدَّمات کو ترتیب دیا جائے اور تقریبات کو مکمل کرتے جائیں تو بالآخر کسی ضروری دینی کا