ضَرور يا تِ دین کی مزید وضاحت کیلئینُزْہَۃُ الْقاری شرحِ صحیح البخاری جلد اوّل صَفْحَہ 239 سے اِقتِباس مُلا حَظہ ہو، چُنانچِہ شارِحِ بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: ایمان کی تعریف میں ضَرور یا تِ دین کا (جو)لفظ آیا ہے، اس سے مُراد وہ دینی باتیں ہیں جن کا دین سے ہوناایسی قَطعی یقینی دلیل سے ثابِت ہو جس میں ذرّہ برابر شُبہ نہ ہواور ان کا دینی بات ہونا ہر عام و خاص کومعلوم ہو۔ خواص سے مُرادعُلماء ہیں اور عوام سے مُراد وہ لوگ ہیں جو عالم نہیں مگر عُلماء کی صُحبت میں رہتے ہوں ۔ اِس بِنا پر وہ دینی باتیں جن کادینی بات ہونا سب کو معلوم ہے مگر ان کاثُبُوت قَطْعی نہیں تو وہ ضروریاتِ دین سے نہیں مَثَلاً عذابِ قبر ،اعمال کاوَزن۔ یونہی وہ باتیں جن کاثُبُوت قَطْعی ہے مگر ان کا دین سے ہونا عوام و خواص سب کومعلوم نہیں تو وہ بھی ضَروریاتِ دین سے نہیں، جیسے