تباہ کاریاں بیان کرتے بھی ہیں تو اوّل تو بمشکل 5فیصد مسلمان نَماز پڑھتے ہوں گے ان میں بھی اِکّادُکّا ہی مذہبی بیان سننے میں دلچسپی لیتا ہے ، نیز اسلامی بہنوں کو کون بیان سنائے ؟ اگر لٹریچر چھاپتے ہیں تو دینی مطالعہ کرنے والوں کی تعداد مایوس کُن حد تک کم ہے! ان نا مُساعِدحالات میں اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ مسلمانوں کی اصلاح کا دائرہ کار اگر صِرف مساجِد اور اجتماعات وغیرہ کی حد تک رکھتے ہیں تو اُمّت کی غالِب اکثریَّت تک ہمارا درد بھرا پیغام پہنچ ہی نہیں پاتا اور طاغوتی طاقتیں یکطرفہ طور پر اپنے مختلف چینلز کے ذریعے مسلمانوں کو گمراہ کرتی رہی ہی رہیں گی۔ اغلب گمان یہی ہے کہ مسلمانوں کے گھروں سے T.V.نکلوانا ممکن نہیں بس ایک ہی صورت نظر آئی اور وہ یہ کہ جس طرح دریا میں طُغیانی آتی ہے تو اُس کا رُخ کھیتوں وغیرہ کی طرف موڑ دیا جاتا ہے تا کہ کھیت بھی سیراب ہوں اور آبادیوں کو بھی ہلاکت سے بچایا جا سکے عین اِسی طرحT.V.ہی کے ذَرِیعے مسلمانوں کے گھروں میں داخِل ہوا جائے اوران کوغفلت کی نیند سے بیدار کیا جائے اور گناہوں اور گمراہیوں کے سیلاب سے انہیں خبردار کیا جائے چُنانچِہ جب معلوم ہوا کہ اپنا T.V.چینل کھول کرفلموں ڈِراموں ،گانوں ، باجوں،موسیقیوں کی دُھنوں اور عورتوں کی نمائشوں سے بچتے ہوئے 100فیصد ی اسلامی مَواد فراہم کرنا