سال کی ہوئی تو والدِ گرامی کا سایہ شفقت سر سے اٹھ گیا۔ وراثت میں ایک باغ اور ایک پَن چکّی ملی اسی کو اپنے لئے ذریعہ معاش بنایا خود ہی باغ کی نگہبانی کرتے اور اسکے درختوں کی آبیاری فرماتے ۔ایک روز آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے باغ میں پَودوں کو پانی دے رہے تھے کہ اُس دَور کے مشہور مجذوب حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم قَندَوزی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ باغ میں داخِل ہوگئے۔ جُوں ہی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نظر اُس اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول بندے پر پڑی، فوراً سارا کام چھوڑ کر دَوڑے اور سلام کرکے دست بوسی کی اور نہایت ہی اَدَب سے ایک درخت کے سائے میں بٹھایا پھر ان کی خدمت میں تازہ انگوروں کا ایک خَوشہ انتہائی عاجِزی کے ساتھ پیش کیااور دو زانوہوکر بیٹھ گئے۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ولی کو اس نوجوان باغبان کا انداز بھا گیا، خوش ہو کربغل سے ایک کَھلی کا ٹکڑا نکالااور چبا کرخواجہ صاحِب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مُنہ میں ڈال دیا۔ کَھلی کا ٹکڑا جُوں ہی