تو مدینۂ مُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے سینکڑوں مِیل دُور سرزمینِ ’’نَہاوَنْد‘‘ میں مصروفِ جِہاد ہیں ، آج امیرُالْمُؤمِنِین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اُنہیں کیونکر اور کیسے پکارا؟ اِس اُلجھن کی تشفِّی تب ہوئی جب وہاں سے فاتِحِ نَہاوَنْد حضرتِ سیِّدُنا سارِیَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا قاصِد (یعنی نمایَندہ) آیا اوراُس نے خبر دی کہ میدانِ جنگ میں کُفّارِ جفا کار سے مُقابلے کے دَوران جب ہمیں شِکَست کے آثار نظر آنے لگے ، اِتنے میں آواز آئی : ’’یَا سَارِیَۃُ الْجَبَل یعنی اے سارِیہ!پہاڑکی طرف پیٹھ کر لو ۔ ‘‘ حضرتِ سیِّدُنا سارِیَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا : یہ تو امیرُالْمُؤمِنِین، خلیفۃ المسلمین حضرتِ سیِّدُنا عُمَر فاروقِ اَعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی آواز ہے اور پھر فوراً ہی اپنے لشکر کو پہاڑ کی طرف پُشت (یعنی پیٹھ) کر کے صَف بندی کا حُکْم دے دیا، اِس کے بعد ہم نے کُفّارِ بداطوار پر زور دار یلغار کر دی تو ایک دم جنگ کا پانسہ پلَٹ گیا اور تھوڑی ہی دیر میں اسلامی لشکرنے کُفّارِبِکار کی فوجوں کو روند ڈالا اور عَساکِرِ اسلامِیہ (یعنی اسلامی فوجوں ) کے قاہِرانہ حملوں کی تاب نہ لا کر لشکرِ اَشرار میدانِ کارزار سے راہِ فِرار اختیار کرگیااور افواجِ اسلام نے فتح مبین کا پرچم لہرا دیا ۔ (1)
مُراد آئی مُرادیں ملنے کی پیاری گھڑی آئی
ملا حاجت روا ہم کو درِ سلطانِ عالَم سا (ذَوقِ نعت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
________________________________
1 - دَلَائِلُ النُّبُوَّۃِ لِلْبَیْہَقِی ج۶ ص ۷۰ ۳، تاریخ دمشق لابن عساکِر ج۴۴ص۳۳۶، تارِیخُ الْخُلَفاء ص۹۹، مِشْکاۃُ الْمَصابِیح ج۴ ص۴۰۱ حدیث۵۹۵۴، حجۃ اللّٰہ علی العالمین ص ۲ ۶۱