استاذ (یعنی معلِّم)ہونا بہت بڑی سعادت ہے کہ ہمارے پیارے مدنی آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس منصب کی نسبت اپنی ذاتِ اقدس کی طرف کر کے اسے عزت وکرامت کا تاج عطا فرمایا ہے ،چنانچہ آپ صلي اللہ تعالي عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا:''انما بعثت معلما یعنی مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ۔'' (سنن ابن ِ ماجہ ، کتاب السنۃ ، باب فضل العلماء،رقم ۲۲۹،ج۱،ص۱۵۰)
باعمل مسلمانوں پر مشتمل معاشرے کی تشکیل میں استاذ کا کردارایک باغبان کی مثل ہے۔ جس طرح کسی باغ کے پودوں کی افزائش وحفاظت باغبان کی توجہ اور کوشش کے بغیر نہیں ہوسکتی اسی طرح طلباء کی مدنی تربیت کے لئے استاذ کی توجہ وکوشش بے حد اہمیت کی حامل ہے ۔استاذ کا کام طلباء کے ظاہر وباطن کو خصائل رذیلہ سے پاک کر کے اوصافِ حمیدہ سے مزین کرنا اور انہیں معاشرے کا ایک ایسا باکردار مسلمان بنانا ہے جو عمر بھر کے لئے ''اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش '' میں مصروف ہوجائے ۔
نبی کریم صلي الله تعالي عليه وسلم کے چند فرامین مقدسہ ملاحظہ ہوں جن میں آپ نے اپنی زبان ِ حق ترجمان سے استاذکے رتبے کو عظمت عطا فرمائی ہے ،۔۔۔۔۔۔
(1) '' جس نے کتاب اﷲ میں سے ایک آیت سکھائی یا علم کا ایک''باب'' سکھایا تواﷲتعالی اس کے ثواب کو قیامت تک کے لئے جاری فرما دیتا ہے۔''
(کنزالعمال، کتاب العلم ، الباب الاول ، رقم۲۸۷۰۰،ج۱۰،ص۶۱)