اوقات کی پابندی اور اس کام میں مصروفیت کی بنا پر اپنے عیال کے لئے قدرِ کفایت روزی نہ کماسکے ۔ چنانچہ وہ اس لئے اجرت لے کہ روزی کمانے کی مصروفیت کہیں اسے اس سعادتِ عظمیٰ سے محروم نہ کروا دے اور اگر اسے مذکورہ مجبوری نہ ہوتی تو وہ اجرت نہ لیتا توایسا شخص بھی مؤذن کے لئے ذکرکردہ ثواب کا مستحق ہوگا بلکہ وہ دوعبادتوں کا جامع ہوگا ،ایک اذان دینا اور دوسری عیال کی کفالت کے لئے سعی کرنا ،اور اعمال کا ثواب نیتوں کے مطابق ہوتا ہے ۔''(ردالمحتار، ج۲، ص۶۰ )
اس سلسلے میں بہتر طریقہ یہ ہے کہ اجارہ کام کی بجائے وقت پر کرے ، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اسے اجرت کے ساتھ ساتھ پڑھانے کا ثواب بھی ملتا رہے گا ۔ امام اہلسنت عظیم المرتبت مجددِ دین وملت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن اجرت پر تلاوتِ قرآن بغرضِ ایصالِ ثواب کروانے کے بارے میں کئے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے اپنے شہرہ آفاق فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں :''ہاں اگر (اجرت پر تلاوتِ قرآن بغرضِ ایصالِ ثواب کروانے والے )لوگ چاہیں کہ ایصال ثواب بھی ہو اور طریقہ جائزہ شرعیہ بھی حاصل ہو تو اس کی صورت یہ ہے کہ پڑھنے والوں کو گھنٹے دو گھنٹے کے لئے نوکر رکھ لیں اور تنخواہ اتنی دیر کی ہر شخص کی معین کردیں مثلاً پڑھوانے والا کہے:'' میں نے تجھے آج فلاں وقت سے فلاں وقت تک کے لئے اس قدر اجرت پر نوکر رکھا جو کام چاہوں گا لوں گا ۔'' وہ کہے:'' میں نے قبول کیا ۔'' اب وہ اتنی دیر کے واسطے اس کا اجیر ہوگیا جو کام چاہے لے سکتا ہے ۔ اس کے بعد اس سے کہے کہ'' فلاں میت کے لئے اتنا قرآن عظیم یا اس قدر کلمہ طیبہ یا درود شریف پڑھ دو ۔''تو یہ صورت جواز کی ہے ۔ الخ''
(فتاویٰ رضویہ ،ص۱۶۸، ج۱۰ نصف اول)