(6) حضرت کثیر بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ میں حضرت ابودرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ دمشق کی مسجد میں بیٹھا تھا تو ایک آدمی نے آ کر کہا : '' اے ابو درداء بے شک میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمَ کے شہر مدینہ طیبہ سے یہ سن کر آیا ہوں کہ آپ کے پاس کوئی حدیث ہے جسے آپ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمَ سے روایت کرتے ہیں اور میں کسی دوسرے کام کے لیے نہیں آیا ہوں۔ ''حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ میں نے رسول کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص علم (دین) حاصل کرنے کے لیے سفر کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اسے جنت کے راستوں میں سے ایک راستے پر چلاتا ہے اور طالب علم کی رضا حاصل کرنے کے لیے فرشتے ا پنے پروں کو بچھا دیتے ہیں اور ہر وہ چیز جو آسمان و زمین میں ہے یہاں تک کہ مچھلیاں پانی کے اندر عالم کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہیں اورعالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی چودھویں رات کے چاند کی فضیلت ستاروں پر، اور علماء انبیائے کرام علیہم السلام کے وارث و جانشین ہیں۔ انبیائے کرام علیہم السلام کا ترکہ دینار و درہم نہیں ہیں۔ انہوں نے وراثت میں صرف علم چھوڑا ہے تو جس نے اسے حاصل کیا اس نے پورا حصہ پایا۔''
(ترمذی، کتاب العلم ، باب ماجاء فی فضل الفقہ، الحدیث ۲۶۹۱، ج۴، ص۳۱۲)
(7) رسول کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ خدائے تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے اور خدا دیتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں۔ (بخاری، کتاب العلم، ، الحدیث ۷۱، ج۱، ص۴۲)