یہ فرمانے کے بعد حضرت سَیِّدُنا صالح مُرّی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی بَہُت روئے اور ایک آہِ سرد دِل پُر درد سے کھینچ کر فرمایا:’’افسوس! کیسا دِل ہِلا دینے والا مَنْظر ہوگا۔‘‘ یہ کہہ کر پھر رونے لگے،آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ کو روتا دیکھ کر شُرَکائے اجتِماع بھی رونے لگے۔ اِتنے میں ایک نوجوان کھڑا ہوا اور کہنے لگا:’’یاسیِّدی!کیا یہ سارا مَنْظر بروزِ قِیامت ہوگا؟‘‘آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے جواب دیا:’’ہاں! یہ مَنْظر زیادہ طویل نہیں ہوگا کیونکہ جب انہیں جہنّم میں ڈال دیا جائے گا تو ان کی آوازیں آنا بند ہوجائیں گی۔‘‘ یہ سنکر نوجوان نے ایک چیخ ماری اور کہا:’’افسوس! میں نے اپنی زِنْدَگی غفلت میں گزار دی، افسوس! میں کوتاہیوں کا شکار رہا، افسوس ! میں خدائے باری عَزَّ وَجَلَّ کی اطاعت وفرمانبرداری میں سُستی کرتا رہا، آہ! میں نے اپنی زِنْدَگی بے کار ضائِع کر دی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ رونے لگا۔کچھ دیر بعد اُس نے ربِّ کائنات عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ ِ بے کَسْ پناہ میں یوں مُناجات کی:’’اے میرے پَرْوَرْدِگار عَزَّ وَجَلَّ!میں گنہگار توبہ کے لئے حاضرِ دَرْبار ہوں، مجھے تیرے سوا کسی سے کوئی سَروکار نہیں،گناہوں سے مُعافی دیکر مجھے قَبول فرما لے، مجھ سَمیت تمام حاضِرین پر اپنا فَضل و کرم فرما اور ہمیں جُودو نَوال(یعنی عطا و بخشش) سے مالا مال کردے ،