یااَرحَمَ الرّاحِمِین! (یعنی اے سب سے بڑھ کر رَحم فرمانے والے) میں نے گناہوں کی گٹھڑی تیرے سامنے رکھ دی ہے اورسچّے دِل سے تیری بارگاہ میں حاضِر ہوں، اگر تو مجھے قَبول نہیں فرمائے گا تویقیناً میں ہَلاک ہوجاؤں گا۔‘‘ اِتنا کہہ کر وہ نوجوان غَش کھا کرگِرپڑا اور چند روز بِسترِ عَلالت پر گزار کر (یعنی بیمار رَہ کر) موت سے ہمکنار ہو گیا۔ اُسکے جنازے میں بے شُمار لوگ شریک ہوئے، رو رو کر اسکے لئے دعائیں کی گئیں ۔ حضرت سَیِّدُنا صالح مُرّی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی اکثر اُس کا ذِکر اپنے بیان میں فرمایا کرتے۔ ایک دن کسی نے اُس نوجوان کو خواب میں دیکھا تو پوچھا: مَا فَعَلَ اللہُ بِکَ یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا مُعامَلہ فرمایا؟تو اُس نے جواب دیا: ’’مجھے حضرتِ سَیِّدُنا صالح مُرّی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی کے اجتِماع سے بَرَکتیں ملیں اور مجھے جنّت میں داخل کر دیا گیا۔‘‘ (کتاب التوابین، ص ۲۵۰ ۔ ۲۵۲)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! کس طرح اس نوجوان کو اجتِماع میں شِرکَت کی بدولت سچّی توبہ کی دَولَت اور جنّت جیسی عظیم نِعْمت حاصل ہوگئی،یقیناً سچّی توبہ کی توفیق ملنا اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ کی خاص عِنایت ہے اور جس پر یہ عِنایت ہوتی ہے اس کےتو وارے نیارے ہوجاتےہیں۔