سے ہَفتہ وار سنّتوں بھرے اجتِماع کا انتظار کرتا، جُونْہِی جُمِعْرات کا دِن آتا میں ہر طرح کی مَصروفیت چھوڑ کر اجتِماع میں حاضِر ہو جاتا۔ آہستہ آہستہ میری عادتیں سَنْوَرنے لگیں، قلبی سُکون بھی ملنے لگا۔ ۱۴۱۸ھ بمطابق 1997ء میں مجھے مدینۃُ الاولیاء (ملتان) میں ہونے والے بین الاقوامی سنّتوں بھرے اجتِماع میں شِرکت کی سَعادَت نصیب ہو گئی، جہاں عاشقانِ رسول کا ٹھاٹھیں مارتا سَمُنْدَر پُرکیف سَماں پیش کر رہا تھا۔ دورانِ اجتِماع شیخِ طریقت، اَمِیرِ اہلسنّت حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّار قادری دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے سنّتوں بھرے بیان نے گرم لوہے پر ہتھوڑے کا کام کیا اور میں نے صدقِ دِل سے فلمیں ڈرامے دیکھنے،گانے باجے سننے، داڑھی مُنْڈانے، رِشْوَت لینے اور دیگر بَدْعَمَلیوں سے توبہ کی، زِنْدَگی بھر دعوتِ اسلامی کے مُشکبار مَدَنی ماحَول سے وابستہ رہنے کی نیّت کرلی اور شیخِ طریقت، اَمِیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے ہاتھ پرسِلْسِلَۂ قَادِرِیَّہ رَضَوِیَّہ عَطَّارِیَّہ میں بیعت کرکے عَطَّاری بھی ہو گیا۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ اُسی سال مجھے دعوتِ اسلامی کے زیرِاہتمام بھیرہ سطح پر ماہِ رمضان کے آخری عَشْرے میں اِعْتِکاف کی سَعادَت نصیب ہوئی جو جامع