تھا۔ ۱۴۱۰ھ بمطابق 1989ء میں مجھے ایک سرکاری محکمے میں مُلازمَت مل گئی۔ یہاں میری تَنْخواہ 3000 (تین ہزار) تھی لیکن رِشْوَت اور دِیگر ناجائز ذرائع کے ذریعے ماہانہ دس ہزار تک کمالیتا۔ محکمے میں اپنا سکّہ چلتا تھا، ہر کوئی خوف کے مارے جی حُضوری پر مَجْبور تھا۔ پھر میں محکمانہ الیکشن میں یونین کا صدر بھی منتخب ہو گیا۔ اب تو میری چاندی ہو گئی، جو جی میں آتا کر ڈالتا، یہاں تک کہ ایک جرم کی پاداش میں گرفتار ہوا اور تین سال قیدِ بامُشَقَّت کاٹنی پڑی۔رِہائی کے بعد سُدھرنے کے بجائے میں نے دوبارہ وہی حرکتیں شروع کر دیں۔ چُنانْچہ کئی مرتبہ جیل کی ہوا کھائی اور مجھ پرکئی مُقَدِّمے قائم ہو گئے۔ افسوس! میری زِنْدَگی کے قیمتی لمحات آخِرَت کو برباد کر دینے والے کاموں میں صَرْف ہو رہے تھے۔ گناہوں کی لذّت میں ایسا منہمک تھا کہ نیک کام کرنے کا خیال بھی نہ آتا۔
شاید اسی طرح گناہ کرتے کرتے میں قبر میں اُتر جاتا اور اپنے کرتوتوں کا بدلہ پاتا مگر میرے پَرْوَرْدِگار عَزَّ وَجَلَّکی طرف سے مجھے سنبھلنے کی توفیق یوں ملی کہ محلہ شیش محل میں میری مُلاقات ایک دُبلے پتلے، سرتاپا سنّتوں کے پیکر مبلغِ دعوتِ اسلامی سے ہوئی، انہوں نے مسکراتے ہوئے پُرتپاک انداز میں