ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔کسی بھی دار السلام کے دار الحرب ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہاں احکامِ شرک اعلانیہ جاری ہوں اور اسلامی شعائر واحکام مطلقاًجاری نہ ہوں جبکہ ہندوستان میں ایسا ہرگز نہیں بلکہ مسلمانوں کو ہر طرح کی آزادی حاصل تھی اور ہے۔لیکن اسماعیل دہلوی نے ہندوستان کو دارالحرب قراردے کر جہاد کا نعرہ بلندکیاجبکہ اس کے پسِ پردہ مقاصدکا حصول ''سستی شہرت اور سود کا جائز ''ہوناتھا کیونکہ شریعتِ مطہرہ کے اصول کے مطابق اگر کوئی مسلمان دارالحرب میں ہے تو اسے کفار سے زیادتی بلاعوض حاصل کرنا جائز ہے، مسلمان کے لئے وہ ہرگز سود میں شمار نہ ہوگا۔اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃالرحمن نے اسماعیل دہلوی کے رد میں ایک مستقل رسالہ ''اِعلام الأعلام بأن ھندوستان دار السلام''(یعنی بلاشک وشبہ ہندوستان دار السلام ہے)تحریر فرمایا جوکہ فتاوٰی رضویہ( جدید) کی چودھویں جلدمیں موجود ہے۔دارالحرب میں رہنے والے مسلمانوں کو یہ بھی حکم ہے کہ اگران کو قدرت واستطاعت ہوتو وہ ہجرت کرکے دارالسلام جائیں تاکہ ان کو احکامِ شریعت پر عمل کرنے میں آسانی ہو۔مذکورہ بالا رسالہ میں اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ الرحمن نے اسماعیل دہلوی کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر ہندوستان دارالحرب ہے تو یہاں سے ہجرت کیوں نہیں کرجاتے جبکہ انگریزگورنمنٹ کی طرف سے کسی قسم کی روک ٹوک بھی نہیں ۔ ہندوستان کے دارالحرب نہ ہونے پر مزید دلائل دیتے ہوئے'' فصول عمادیہ'' کے حوالہ سے فرماتے ہیں کہ ''دارالسلام میں جب تک کچھ بھی احکامِ اسلام باقی رہیں وہ دارالحرب نہ بنے گااگرچہ وہاں اہل اسلام کا غلبہ ختم ہوجائے'' جبکہ اس کے برعکس صاحبِ درمختار کی''المنتقٰی''سے لکھا''کہ دارالحرب میں بعض اسلامی احکام نافذ ہوجائیں تو وہ دارالسلام بن جاتا ہے'' مزید برآں یہ کہ کسی ایسی جگہ پر'' جہاں احکا م شرک واحکام اسلام دونوں نافذ ہوں (جیسا کہ فی الوقت تقریبًا پوری دنیامیں ایسا ہی ہے) تو وہ دارالحرب نہیں ہوگا''(ملخص از'' فتاوٰی رضویہ'' (جدید)،ج۱۴،ص ۰۵ا تا۱۰۹،رضا فاؤنڈیشن لاہور)