یعنی'' جب حدیث صحیح ثابت ہوجائے تووہی میرا مذہب ہے ''۔
جواب :صحت سے مراد صحت فقہیّہ ہے،جس کی روسے بربنائے حدیث اسے فتوٰی دینے کا اختیارہو۔''حجۃ اﷲالبالغہ'' کی اسی عبارت میں ہے کہ جوچارلاکھ حدیثیں جمع کرچکاہو ،وہ بھی حدیث سے فتوٰی دینے کے لائق نہیں اور پانچ لاکھ میں بھی صرف لیاقت کی امید ہے، یقین نہیں، غیر مقلّدین کہ حدیث سے فتوٰی دیا چاہتے ہیں۔اگر ہندوستان بھر کے جمع ہوجائیں تویاد رکھنا کیسا، اپنے پاس کی تمام کتابیں اکٹھا کرکے بھی ایک لاکھ حدیث صحیح نہیں گنا سکتے،پانچ لاکھ تو بہت ہیں ۔
کتاب کے ورقوں میں لکھا ہونا کافی نہیں،اپنے لئے نظر ہونا ضروری ہے اس کاحال امتحان سے کھل سکتا ہے کہ سب کتابیں درکنا رفقط صحاح ستہ بلکہ ان میں سے ایک ہی کتاب کی سب حدیثیں بھی ایک وقت میں پیش نظرہونی دشوار ہیں، اگلے علماء کو اکثر بارہادھوکے ہوئے کہ سب سے مشہور ترکتاب'' صحیح بخاری'' میں حدیث موجود تھی، ان کی نظر نہ پہنچی تو آج کل کے ناقصوں کا کیا ٹھیک ہے ۔
سوال نمبر ۸۴: ''حجۃ اﷲالبالغہ'' جس کا بیان، نمبر ۲۸ میں ہوچکا ہے ،اس میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲعلیہ کاقول ذیل مذکور ہے یانہیں؟