کے سبب ملک میں بکثرت فوجداری(۱)کے مقدمے ہوئے اور مچلکوں(۲)
وغیرہ تک نوبت پہنچی اور فتنہ کا بند کرنا، عقل و شرع و قانون سب میں واجب ہے ۔ دوم : ان کے آنے سے نمازیوں کو نفرت ہوتی ہے اور جوو جہ نفرت ہو مسجد سے روکا جائے گا۔جیسے جذامی یا وہ جس کا بدن پیپ ہوگیاہو،حالانکہ ان کا اپنا کوئی قصور بھی نہیں تو بدمذہب بدرجہ اولیٰ روکا جائے گا۔سوم: اُن کے فتنہ کے خوف سے نماز ی مسجد کو چھوڑ بیٹھے تو مسجدویران ہوئی اور نہ چھوڑا اور فتنہ اٹھے تو جیل ،آباد ہوئے ۔ مسجدیں یوں بھی ویران ہوئیں اور غم و غصہ کھایا تو نماز خراب ہوئی ۔
سوال نمبر ۴۳:نصارٰی نجران کا وفدبخدمت حضور سرورعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مسجد شریف میں آنا کس حیثیت سے تھا اور حضور نے منع کیوں نہ فرمایا ؟
جواب :نصارٰی نجران امان لے کر حاضر ہوئے تھے اور جو امان لے کر آئے اس سے تعرض جائز نہیں،اس لئے باوجود اس کے کہ صحابہ کرام نے ان کو روکنا چاہا نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ دیکھو ''زرقانی شرح مواہب ''۔
سوال نمبر ۴۴:مسجد حرام، خواہ اورمساجد میں کفار کاآناامام شافعی و امام مالک و امام احمد بن حنبل رضی اﷲتعالیٰ عنہم کے نزدیک جائز ہے کہ نہیں ؟
جواب :امام مالک تو مطلقاً اجاز ت نہیں دیتے اور امام شافعی و امام احمد مسجد الحرام میں منع کرتے ہیں اور امام محمد کابھی یہی مذہب ہے اوریہ اختلاف ذمیوں کے بارے میں ہے،جو سلطنتِ اسلام میں مطیعِ اسلام ہو کر رہیں ۔دیکھو جامع صغیر امام محمد،