سے تعصب رکھیں تو ان کے پیچھے بھی نماز منع ہے نہ کہ غیر مقلّدین کہ بدمذہب ہیں اور بدمذہب بھی ایسے جن میں بہت کفریہ بدعتیں ہیں اور حنفیہ سے تعصب اتنا کہ ان کو ''مشرک'' کہتے ہیں ۔
سوال نمبر ۳۳:بعض عبارات فقہا میں، مثل شامی وغیرہ کے جومذکور ہے کہ نماز، بِرّ وفاجر کی اقتدا میں جائز ہے ۔ علی ھٰذا حدیث ''صلوا خلف کل بِرّ و فاجر''(۱) اس جواز سے کیامراد ہے ؟
جواب : یہ جواز اس معنٰی پر ہے کہ فرض اتر جائے گا، نہ یہ کہ کوئی کراہت نہیں ۔ میں انہیں شامی کے دو اقوال سے بیان کرچکاکہ'' فاسق و مبتدع کے پیچھے نماز مکروہ ومنع ہے ''۔اصل بات یہ ہے کہ نمازِ عام کی امامتِ سلاطین خود کرتے ہیں یا وہ ،جسے وہ مقرر کریں اور بعض وقت حُکّام بد مذہب یافاسق بھی ہوئے، اُن کے پیچھے نماز پڑھنے سے وہی اندیشہ تھا تلوار اور تازیانہ کا،جوحدیث میں گزرا ۔ اسی بنا پر یہ حدیث آئی ہے کہ ضرورت کے وقت ان کے پیچھے پڑھ لے ۔او ر علماء نے فرمایا ہے کہ'' یہ حکم اس صورت میں ہے کہ اس کافسق حدِ کفر تک نہ پہنچا ہو اور کوئی مردصالح موجودنہ ہو ''۔ دیکھو'' اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ''(۲)او ر پھر اس حدیث کے نیچے