جیسے جیسے بچی بڑی ہورہی تھی، ہماری تشویش میں اضافہ ہورہا تھاکہ لڑکی ذات کا معاملہ ہے ، اس کا مستقبل کیا ہوگا؟میں نے بچی کی دلجوئی کی خاطر ذہنی معذور (ابنارمل)بچوں کے اسکول میں داخل کروادیا ۔چونکہ وہ اپنے پیروں پر نہیں چل سکتی تھی ،اس لئے میں اسے گود میں اٹھا کر اسکول چھوڑ آتا اورچھٹی کے بعد واپس بھی لایا کرتا ۔گھر کے قریب دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ اسلامی بہنیں مدرسۃ المدینہ (بالغات) پڑھاتی تھیں ۔میراذہن بنا کہ اتنی دور اسکول لے جانے سے بہتر ہے کہ اسے گھر کے قریب مدرسۃ المدینہ میں داخل کروا دیا جائے۔ یوں وہ مدرسۃ المدینہ میں جانے لگی۔اسلامی بہنوں نے بہت شفقت دی ،کچھ ہی عرصہ میں میری بچی اور ہمارا سارا گھرانا امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ سے مرید ہو کر عطّاری بن گیا۔
شاید آپ کویقین نہ آئے مگر خدا کی قسم! یہ حقیقت ہے کہ چند ماہ کے اندر اندر میری بچی جو ذہنی طور پر معذور تھی ، بالکل صحیح ہو گئی اورحیرت انگیز طور پر اسکے دونوں پاؤں اس قابل ہو گئے کہ وہ اپنے قدموں سے چلنے لگی(یہ کہتے ہوئے اِن اسلامی بھائی کی آواز بھر آئی اور ر وتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ سب میرے پیر ومرشد امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی نظر عنایت ہے ان کی اپنے مریدوں کیلئے کی جانے والی