علاج کروایا مگر بخار اُترنے کے بجائے تیز ہوتا چلا گیا ۔بالآخر اسے اسپتال میں داخل کروانا پڑا۔تقریباً6 ماہ تک میری مُنّی سخت اذیت میں مبتلا رہی ۔اس کا دھڑ اور ذہن مَفْلُوج (مَفْ ۔ لُوج)ہوچکاتھا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اب اس کا علاج نہیں ہوسکتا،یہ سن کر ہماری رہی سہی اُمیدیں بھی دم توڑ گئیں۔پھرمیری لاڈلی بیٹی بے ہوش ہو کرقومہ میں چلی گئی اورمیں بے بسی سے دیکھتا رہ گیا۔
ایک دن ہمارے محلے میں دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ایک اسلامی بھائی سر پر سبز عمامہ شریف سجائے سفید لباس میں ملبوس نظر آئے ۔میں نے ان سے بیٹی کی صحت یابی کے لئے دُعا کی عرض کی ۔انہوں نے ہاتھوں ہاتھ دُعا کی اورمجھے جمعرات کو ہونے والے دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کی دعوت بھی دی کہ وہاں پر اِجتماعی دُعا میں شامل ہونے کی بڑی برکتیں ہیں ۔میں اجتماع میں شریک ہوا اور دعا بھی مانگی ۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ کچھ ہی دن بعد میری بچی کو ہوش آگیا ۔ڈاکٹر زاور اسپتال کا دیگر عملہ حیران تھا کہ یہ کیونکر ممکن ہوا !مگر بچی کا دھڑ اور ذہن مفلوج ہی رہا ،وہ ابنارمل (یعنی ذہنی طور پر معذور)ہوگئی۔بہر حال ہم اسے گھر لے آئے۔