سب سے زیادہ تشویش ناک بات تو یہ ہے کہ علم دین کی دولت سے محرومی کی بناء پر اب ان ''کارناموں''کوسرانجام دیتے وقت یہ بھی خیال نہیں کیا جاتا کہ یہ گناہ اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں ۔اس کی بجائے ''اجی !زمانے کا دستور ہے ، خوشی کا موقع ہے ، مجبوری ہے ، عادت بن گئی ہے ، بچنا مشکل ہے ، جوانی کا تقاضا ہے ۔۔۔۔۔۔'' جیسے بیوقوفانہ جملوں کو دلیل بنا کر ان گناہوں کا ارتکاب اس قدر بے باکی اور دلیری سے کیا جاتا ہے کہ الامان والحفیظ۔۔۔۔۔۔
جبکہ اس کے برعکس ایسے مسلمانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے جو زیورِ علم سے آراستہ ہوں اور اپنی زندگی رب تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اس کے حبیب ، بیمار دلوں کے طبیب اکی اطاعت میں بسر کریں ، میدانِ محشر میں سرخروئی کے لئے خوب نیکیاں کریں ،سنتوں پر عمل کریں اور ارتکاب ِ گناہ سے باز رہیں۔
اب اگرکسی ''عقل مند'' کے مشورے کے مطابق اس صورتِ حال کو جوں کا توں رہنے دیا جائے تو نتیجۃً ہمیں اجتماعی اور انفرادی طور پر درج ِ ذیل نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ، ۔۔۔۔۔۔