Brailvi Books

امامِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی وصیتیں
13 - 44
طلب کریں اورنہ ہی ان سے بحث ومباحثہ کرنا ۔

(43)۔۔۔۔۔۔ان اہلِ علم کے سامنے بغیرکسی واضح دلیل کے کوئی بات بیان نہ کرنا ۔
 کسی کے بڑوں کو براکہنے سے بچنا:
 (44)۔۔۔۔۔۔اہلِ علم کے اسا تذہ کو برا بھلا نہ کہنا ورنہ وہ تجھے لعن طعن کریں گے۔ جیسا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتاہے:''
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ فَیَسُبُّوا اللہَ عَدْوًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ
ترجمہ کنز الایمان: اور انہیں گالی نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں کہ وہ اللہ کی شان میں بے ادبی کرینگے زیادتی اورجہالت سے۔''(۱) (پ7،الانعام:108)

(45)۔۔۔۔۔۔ لوگو ں سے محتاط رہنا (یعنی کسی سے دھوکانہ کھانا )۔
 1۔۔۔۔۔۔خلیفہ اعلیٰ حضرت، صدر الافاضل، سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیرخزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:'' قتادہ کا قول ہے کہ مسلمان کفار کے بتوں کی برائی کیا کرتے تھے تاکہ کفار کی نصیحت ہو اور وہ بت برستی کے عیب سے باخبر ہوں مگر ان ناخدا شناس جاہلوں نے بجائے پندپذیر ہونے کے شانِ الٰہی (عَزَّوَجَلَّ ) میں بے ادبی کے ساتھ زبان کھولنی شروع کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اگرچہ بتوں کو برا کہنا اور ان کی حقیقت کا اظہار طاعت وثواب ہے لیکن اللہ(عَزَّوَجَلَّ ) اور اس کے رسول (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم) کی شان میں کفار کی بد گوئیوں کو روکنے کے لئے اس کو منع فرمایا۔ ابنِ انباری کا قول ہے یہ حکم اوّل زمانہ میں تھا جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو قوت عطا فرمائی منسوخ ہو گیا۔''
Flag Counter