رہیں آیات محکمات ان کے ترجمہ میں کو شش تو کرتے مگر گزشتہ سارے علوم کا لحاظ رکھتے ہوئے مفسرین ، محدثین ، فقہاکے فرمان پر نظر کرتے ہوئے پھر بھی پوری کوشش کرنے کے باوجود قرآن کریم کے سامنے اپنے کو طفل مکتب جانتے تھے ۔
اس طریقہ کار کافائدہ یہ تھا کہ مسلمان بد مذہبی ، لا دینی کا شکار نہ ہوتے تھے وہ جانتے بھی نہ تھے کہ قادیانی کس بلا کانام ہے او ردیوبندی کہا ں کا بھوت ہے۔ غیر مقلدیت، نیچریت کس آفت کو کہتے ہیں۔چکڑالوی کس جانور کا نام ہے ۔ علماء کے وعظ خوف خدا عظمت و ہیبت حضور محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ، مسائل دینیہ اور علمی معلومات سے بھرے ہوتے تھے وعظ سننے والے وعظ سن کر مسائل ایسے یاد کرتے تھے جیسے آج طالب علم سبق پڑھکر تکرار کرتے ہیں کہ آج مولوی صاحب نے فلاں فلاں مسئلہ بیان فرمایا ہے غرضیکہ عجیب نوری زمانہ تھا اور عجب نورانی لوگ تھے ۔
اچانک زمانہ کا رنگ بدلا، ہوا کے رخ میں تبدیلی ہوئی بعض نادان دوستوں اور دوست نمادشمنوں نے عام مسلمانوں میں ترجمہ قرآن کرنے اور سیکھنے کا جذبہ پیدا کیا اور عوام کو سمجھا یا کہ قرآن عوام ہی کی ہدایت کے لئے آیا ہے اس کا سمجھنا بہت سہل ہے ۔ ہر شخص اپنی عقل وسمجھ سے ترجمہ کرے اور احکام نکالے اس کے لئے کسی علم کی ضرورت نہیں ۔ عوام میں یہ خیال یہاں تک پھیلایا کہ لوگو ں نے قرآن کو معمولی کتاب اور قرآن والے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو معمولی بشر سمجھ کر قرآن کے ترجمے بے دھڑک شرو ع کردیئے اور نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات کاانکار بلکہ اس ذات