آپ نے فرمایا
''سنو!جب میں نے دیکھا کہ اس امت کے ہر سرخ و سفید کی ذمہ داری میرے کندھوں پر ڈال دی گئی ہے تومجھے فوراًدُور دراز کے شہروں اور زمین کے اطراف و اکناف میں رہنے والے بھوک کے مارے ہو ئے فقیروں ،بے سہارا مسافروں ،ستم رسیدہ لوگوں اور اس قسم کے دوسرے افراد کا خیال آیا اور میرے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ قیامت کے دن اللہ عزوجل مجھ سے میری رعایا کے بارے میں باز پُرس فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ کے پیارے حبیب ،حبیبِ لبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ان تمام لوگوں کے حق میں میرے خلاف بیان دینگے۔یہ سوچ کر میرے دل پر ایک خوف طاری ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں میراکو ئی عذر قبول نہیں فرمائے گا اور میں اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے حضور کسی قسم کی صفائی پیش نہیں کر سکوں گا ۔ یہ سوچ کر مجھے خود پر ترس آتا ہے اور میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سمندر امنڈ آتا ہے۔ اس حقیقت کو میں جتنا یاد کر تا ہوں، میرا احساس اتنا ہی بڑھتا چلا جاتاہے۔''
پھر آپ نے اپنے بچوں کی امّی سے مخاطب ہوکر فرمایا،'' اب آپکی مرضی ہے اس سے نصیحت حاصل کریں یا نہ کریں۔''