(۱۱۸)۔۔۔۔۔۔ حضرت سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبي اکرم صَلَّی اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ وَسلَّم میرے قریب سے گزر ے تو میرے ساتھ ایک شخص تھا۔ رسول ِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ وَسلَّم نے دریافت فرمایا،'' اے ابی ! یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟'' میں نے عرض کی ،''یہ میرا قرض دار ہے، میں اس سے قرض کا تقاضہ کر رہا ہوں۔'' نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ وَسلَّم نے ارشادفرمایا ،''اے ابی ! اس سے اچھاسلوک کرو۔ ''یہ فرمانے کے بعدآپ صَلَّی اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ وَسلَّم اپنے کام سے تشریف لے گئے ۔ جب دوبارہ حُضورپُرنور صَلَّی اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ وَسلَّم کا میر ی طرف سے گزر ہواتو اس وقت میرے ساتھ وہ شخص نہ تھا ۔ سرورِکونین صَلَّی اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ وَسلَّم نے مجھ سے استفسار فرمایا،'' اے ابی ! تو نے اپنے قرض دار بھائی سے کیا سلوک کیا ؟'' میں نے عرض کی ،''یارسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ وَسلَّم !وہ قرض ادا نہیں کرپارہا تھا، چنانچہ میں نے اپنے مال کا تیسرا حصہ اللہ عزوجل کی خاطر اوردوسرا رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ وَسلَّم کی خاطر اوربقیہ اللہ عزوجل کی طرف سے مجھے عقیدہ ٔ توحید پر ثابت قدمی کی توفیق ملنے کے سبب معاف کردیا ۔'' رسول ِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ وَسلَّم نے (خوش ہوکر) تین بار ارشاد فرمایا،'' اللہ عزوجل تم پر رحم کرے ، ہمیں اسی چیز کا حکم دیا گیا ہے۔''
پھر ارشاد فرمایا،''اے ابی ! بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے کچھ لوگوں کو بھلائی کا سبب بنایا اور بھلائی اوراس کے کرنے والوں کو ان کا محبوب بنا دیا ۔ بھلائی کے حریصوں پر اچھائی کا طلب کرنا آسان فرمادیا اوران پرعطا ء کی بارش برسائی۔ لہذا ان (یعنی خیر کو طلب کرنے والوں) کی مثال اس بارش کی سی ہے جسے اللہ عزوجل نے بنجر وقحط زدہ زمین پر برسنے کا حکم ارشاد فرمایاتاکہ وہ زمین اور اہلِ زمین کو حیات