Brailvi Books

حسنِ اخلاق
30 - 74
(۷۲)۔۔۔۔۔۔ حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم بارگاہ نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول ِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ وَسلَّم نے ارشاد فرمایا،'' اس وادی سے تمہارے پاس ایک جنتی شخص آئے گا۔''اتنے میں انصار ی صحابی تشریف لائے جن کی داڑھی سے وضو کا پانی ٹپک رہا تھا،انہوں نے اپنے جوتے بائیں ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھے، پھر انہوں نے ہمیں سلام کیا ۔دوسرے دن رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ وَسلَّم نے دوبارہ یہی ارشاد فرمایا تو پھر وہ ہی انصاری صحابی پہلے کی طرح تشریف لائے ۔تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا ۔ جب رسول ِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ وَسلَّم اپنی مجلس سے اٹھے تو حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ اُن صحابی کے پیچھے ہولیے اوراُن سے کہنے لگے،'' میری اپنے والد صاحب سے ناراضگی ہوگئی ہے اورمیں نے قسم کھائی ہے کہ تین دن تک اُن کے پاس نہیں جاؤں گا، اگر آپ مناسب سمجھیں تو تین دن مجھے اپنے پاس ٹھہرنے کی اجازت عطا فرمائیں۔'' اس انصاری صحابی نے اجازت دے دی ۔

    حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ'' وہ تین راتیں اُن کے پاس قیام پذیر رہے اورانہوں نے انصاری صحابی کے قیام اللیل کو تو نہ دیکھا لیکن جب وہ نیند سے بیدار ہوتے اور اپنے بستر پر کروٹ لیتے تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے یہاں تک کہ نمازِ فجر کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ۔

     حضرت سیدنا عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اُس صحابی سے اچھی بات کے علاوہ کچھ نہ سنا۔ جب تین دن پورے ہوئے توقریب تھا کہ میں اُن کے اعمال کو حقیر جانتا لیکن جب میں نے اُس انصاری صحابی سے کہا ،''اے اللہ عزوجل کے بندے !(۷۲)۔۔۔۔۔۔ حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم بارگاہ نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول ِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ وَسلَّم نے ارشاد فرمایا،'' اس وادی سے تمہارے پاس ایک جنتی شخص آئے گا۔''اتنے میں انصار ی صحابی تشریف لائے جن کی داڑھی سے وضو کا پانی ٹپک رہا تھا،انہوں نے اپنے جوتے بائیں ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھے، پھر انہوں نے ہمیں سلام کیا ۔دوسرے دن رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ وَسلَّم نے دوبارہ یہی ارشاد فرمایا تو پھر وہ ہی انصاری صحابی پہلے کی طرح تشریف لائے ۔تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا ۔ جب رسول ِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ وَسلَّم اپنی مجلس سے اٹھے تو حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ اُن صحابی کے پیچھے ہولیے اوراُن سے کہنے لگے،'' میری اپنے والد صاحب سے ناراضگی ہوگئی ہے اورمیں نے قسم کھائی ہے کہ تین دن تک اُن کے پاس نہیں جاؤں گا، اگر آپ مناسب سمجھیں تو تین دن مجھے اپنے پاس ٹھہرنے کی اجازت عطا فرمائیں۔'' اس انصاری صحابی نے اجازت دے دی ۔

    حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ'' وہ تین راتیں اُن کے پاس قیام پذیر رہے اورانہوں نے انصاری صحابی کے قیام اللیل کو تو نہ دیکھا لیکن جب وہ نیند سے بیدار ہوتے اور اپنے بستر پر کروٹ لیتے تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے یہاں تک کہ نمازِ فجر کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ۔

     حضرت سیدنا عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اُس صحابی سے اچھی بات کے علاوہ کچھ نہ سنا۔ جب تین دن پورے ہوئے توقریب تھا کہ میں اُن کے اعمال کو حقیر جانتا لیکن جب میں نے اُس انصاری صحابی سے کہا ،''اے اللہ عزوجل کے بندے !