حکایتیں اور نصیحتیں |
عَزَّوَجَلَّ سے لبریزاورعشق مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے سرشارہوتے ،ایمان کوتازگی ملتی،اسلام کی محبت میں ترقی آتی ، نیکیوں کا جذبہ ملتا،گناہوں سے نفرت پیداہوتی ،ثواب کی طلب میں اضافہ ہوتا، گناہ سے بچنے کاذہن بنتااوردین سیکھنے سکھانے کے لئے راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں سفرکاجذبہ ملتاہے ۔الغرض وعظ ونصیحت ہرطرح سے فائدہ مندہے ۔چنانچہ،اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتاہے :
وَّ ذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنۡفَعُ الْمُؤْمِنِیۡنَ ﴿55﴾
ترجمہ کنزالایمان:اورسمجھاؤکہ سمجھانامسلمانوں کوفائدہ دیتاہے۔(پ27،الذّٰریٰت:55) حضرت سیدناامام فخرالدین رازی علیہ رحمۃ اللہ الوالی نے اس کی تفسیرمیں ارشادفرمایا:''اگرسمجھاناکسی کافرکوشرفِ ایمان کافائدہ دے تویہ مسلمان ہی کو نفع دینا ہے کیونکہ وہ مسلمان ہوچکاہے۔''
(تفسیرکبیر،سورۃالذّٰریٰت،تحت الایۃ۵۵،ج۱0،ص۱۹۱)
پھریہ کہ وعظ ونصیحت کے کچھ آداب ہیں اگرانہیں مدنظررکھ کراس فریضہ کوانجام دیاجائے تومقصودحاصل ہوگاورنہ ساری کوشش رائیگاں جائے گی ۔ لہٰذایہاں شیخ طریقت،امیراہل سنت،بانی ئ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولاناابوبلال محمدالیاس عطارقادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ کے فرامین کی روشنی میں انفرادی واجتماعی وعظ ونصیحت ،امربالمعروف اورواعظین ومبلغین کے 26 آداب بیان کئے جاتے ہیں: (1)۔۔۔۔۔۔مبلغ باعمل ہو۔کیونکہ باعمل کی بات جلداثرکرتی ہے۔(2)۔۔۔۔۔۔علمائے اہلسنت کی کتابوں کامطالعہ کرتے رہیں۔(3)۔۔۔۔۔۔جب کسی کو نیکی کی دعوت دیں(یعنی نصیحت کریں)تواس کے ساتھ محبت سے پیش آئیں اورگناہ کرتے دیکھیں تو نہایت ہی نرمی کے ساتھ اسے منع کریں اوربڑی محبت کے ساتھ اسے سمجھائیں۔(4)۔۔۔۔۔۔بے جاجذباتی نہ بنیں۔ اگر جھڑک کر سمجھانے کی کوشش کریں گے توالٹاضدپیداہوجانے کااندیشہ ہے ۔لوگ آپ سے نفرت کرنے لگیں گے۔کسی کوڈانٹ کرسمجھانے کی مثال یوں سمجھیں کہ گویاجس برتن میں کچھ ڈالناتھااس میں پہلے ہی سے آپ نے چھیدکرڈالا۔ (5)۔۔۔۔۔۔اگر کوئی غلطی کردے تو اسے سب کے سامنے ہرگزنہ ٹوکیں۔اس سے آپ کی بات بے ا ثرہوجائے گی اوراس کی دل آزاری ہوجانے کابھی قوی امکان ہے ۔ لہٰذاموقع پاکرسمجھائیں۔حضرت سَیِّدُنا ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:''جس نے اپنے بھائی کوسب کے سامنے نصیحت کی اس نے اس کو ذلیل کردیااورجس نے تنہائی میں نصیحت کی اس نے اس کومُزَیَّن(آراسۃ)کردیا۔
(تفسیرکبیر،سورۃالذّٰریٰت،تحت الایۃ۵۵،ج۱0،ص۱۹۱) (تنبیہ الغافلین ،باب الامربالمعروف والنھی عن المنکر،ص۴۹)
یعنی ظاہر ہے اسے اکیلے میں محبت کے ساتھ سمجھائیں گے توقوی امیدہے کہ وہ اپنی غلطی کی اصلاح کرلے گا۔اور یوں وہ اصلاح کے ساتھ مُزَیَّن ہوجائے گا۔ (6)۔۔۔۔۔۔ والدین اپنی اولاد کو ، شوہر اپنی بیوی کو ، اور استاد اپنے شاگرد کو ضرورتاً سختی سے بھی سمجھائیں تو حرج نہیں۔ (7)۔۔۔۔۔۔ کوئی برائی میں مصروف ہے ، گناہ کررہا ہے اور ہمارا گمان غالب ہے کہ اگر ہم سمجھائیں گے تو برائی سے باز آجائے گا ۔ ایسی صورت میں
اَمْرٌ بِالْمَعْرُوْف وَنَہْیٌ عَنِ الْمُنْکَر
واجب ہے ۔