حکایتیں اور نصیحتیں |
توکبھی آنے والے فتنوں کی خبرارشادفرماتے الغرض کلام حاضرین کی حالت اوروقت کے تقاضے کے عین مطابق ہوتا ۔ صرف ایک حدیث پاک اوراس کی مختصرشرح ملاحظہ فرمائیں ۔چنانچہ، حضرت سیدناعرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی اکرم،نورِمجسّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ہمیں نماز پڑھائی پھراپنا چہرہ مبارک ہماری طرف کرکے ایسابیان فرمایاکہ جس سے آنسو بہہ پڑے اوردل خوف زدہ ہو گئے تو ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا :''یارسولَ اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم!یوں لگتا ہے کہ یہ بیان، الوداع کہنے والے کی نصیحت کی طرح ہے ۔آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ہمیں کس چیز کی وصیت فرماتے ہیں؟ '' آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''میں تمہیں اللہ عزوجل سے ڈرنے اورامیرکی بات سن کراطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں اگرچہ وہ امیر حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ تم میں سے جو شخص زندہ رہے گاوہ کثیر اختلافات دیکھے گاتو (اُس وقت)تم پر میری سنت اورمیرے ہدایت یافتہ ، راہنمائی کرنے والے خلفاء کی پیروی لازم ہے،پس سنت کادامن مضبوطی سے تھام لینااس طرح کہ جیسے کوئی چیزداڑھوں سے پکڑتے ہواور خود کو نئے پیدا ہونے والے کاموں سے بچا کر رکھنا کیونکہ ہر نیا( خلافِ شریعت) کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اورہر گمراہی جہنم میں (لے جانے والی) ہے ۔''
(سنن ابودا ؤد ، کتاب السنۃ ، باب فی لزوم السنۃ ، رقم الحدیث ۴۶0۷، ج۴، ص۲۶۷)
امام جلیل ،عارف باللہ حضرت سیدناعبدالغنی نابلسی علیہ رحمۃ اللہ القوی اس حدیث پاک کی شرح میں ارشادفرماتے ہیں: ''حضورنبی رحمت ، شفیعِ امت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے الوداع کہنے والے کی طرح نصیحت فرمائی یعنی ایسے شخص کی وصیت کی طرح جو اپنی قوم کو چھوڑ کر جارہاہو اور چاہتا ہو کہ اپنے جانے سے پہلے انہیں اُن باتوں کی وصیت کرجائے کہ اس کے بعد انہیں ان باتوں کی انتہائی ضرورت پڑے گی۔تووہ انہیں وصیت و نصیحت کرتاہے ، خوف دلاتا ہے اور زجر وتوبیخ کرتا ہے اوراپنی مخالفت سے ڈراتا ہے۔ اوریہ صرف ان کی بھلائی کی انتہائی چاہت کے سبب کرتا ہے کہ کہیں وہ اس کے بعدگمراہ نہ ہوجائیں ۔ (مزید فرماتے ہیں)اس حدیثِ پاک میں یہ اشارہ بھی ہے کہ واعظ کو چاہے کہ بوقتِ وعظ اپنے پاس موجودحاضرین کونصیحت کرنے میں پوری کوشش صرف کرے اورایسی کوئی بھی فائدہ مند بات ترک نہ کرے جس کے متعلق جانتاہوکہ حاضرین اس کے لئے دوسری مجلس کے محتاج ہوں گے کیونکہ دوسری مجلس تک زندہ رہنے کاکوئی بھروسہ نہیں۔اور واعظ کے لئے یہ جائز ہے کہ بغیرکوئی مشقت اٹھائے حاضرین کی حالت کے مطابق کبھی کبھاران کو ڈرائے اور زجر وتوبیخ کرے ،البتہ !اس کی عادت نہ بنائے جیسا کہ حضور نبی رحمت ،شفیع امت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کامبارک عمل تھاکہ کبھی ڈراتے اورکبھی نہ ڈراتے ۔
(الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ،الباب الاول فی الاعتصام بالکتاب والسنۃ ۔۔۔الخ،ج۱،ص۹۵)
وعظ ونصیحت کے بے شمارفوائدہیں،اس کے ذریعے کفاردولت اسلام سے مشرف ہوتے،مسلمانوں کے دل خوفِ خد