خراسان میں کیا کر رہے تھے؟'' اس نوجوان نے بتایا: ''ہم اپنے دینی بھائیوں حضرتِ سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم اور حضرتِ سیدنا معروف کَرْخی علیہ رحمۃاللہ الجلی کے سا تھ اکٹھے بیت الحرا م کے ارادے سے بغداد آئے، میں بیت المقدس کی زیارت کرنے آگیا اوروہ دونوں دیہات کے را ستے سے چلے گئے۔'' میں نے کہا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ پر رحم فرمائے، خراسان سے بیت المقدس تک ایک سال کی مسافت ہے۔'' اس نے کہا:''اگرچہ ایک ہزار سال کی مسا فت ہو،بندہ اس کاہو، زمین بھی اس کی ہو، آسمان بھی اس کا ہو، زیارت بھی اس کے گھر کی ہو اورارادہ بھی اسی کی بارگاہ میں حاضری کاہوتوپھر پہنچانا اور قوت وقدرت مہیا کرنا بھی اسی کے ذمۂ کَرَم پرہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ سورج کیسے مشرق سے مغرب تک کاسفر ایک دن میں طے کر لیتاہے؟ کیا وہ اپنی قوت سے اتنی مسافت طے کرتا ہے یا قادر عَزَّوَجَلَّ کی قوت وارادے سے؟ جب ایک بے جان جامد سورج جس پر نہ حساب ہے، نہ عذاب، ایک دن میں مشرق سے مغرب تک پہنچ جاتا ہے تویہ کوئی حیرانگی کی بات نہیں کہ اس کاایک بندہ ایک دن میں خراسان سے بیت المقدس پہنچ جائے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی قدرت وقوت کا مالک ہے، اور خلا ف ِ عادت کا م اسی سے صادر ہوتا ہے جو اس کا محبوب اور مختارہو، اے سَرِّی سَقَطِی! دنیا وآخرت کی عزت اختیار کر اوردنیا و آخرت کی ذلت تک پہنچنے سے بچ۔''
میں نے عرض کی :''اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ پر رحم فرما ئے!دنیا وآخرت کی عزت کی طرف میری رہنما ئی فرما دیجئے؟'' تواس نے کہا: ''جو بغیرمال کے امیری، بغیر سیکھے علم، بغیر خا ندان کے عزت چاہتا ہو تو اسے چاہے کہ اپنے دل سے دنیا کی محبت نکال دے، اس کی طرف ما ئل نہ ہو، اور نہ اس سے مطمئن ہو، اس لئے کہ دنیا کی صفا ئی میں میل کی ملاوٹ، اور اس کے میٹھے پن میں کڑوا ہٹ ہے۔'' میں نے پھرعرض کی: ''اے میرے سردار! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو اپنے انوارکے ساتھ خاص کیا اور اپنے اسرار سے آگا ہ فرمایا! اب کہا ں کا ارا دہ ہے؟'' اس نے بتایا: ''اب حجِ بیتُ اللہ اور سیدالانام صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے مزارِپُر اَنوار کی زیارت مقصود ہے۔''میں نے عرض کی: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! میں آپ سے جدانہیں ہوں گاکیونکہ آپ سے جدا ہونا، روح کے جسم سے جدا ہونے سے بھی زیا دہ سخت ہے۔'' اس نے بِسْمِ اللہ شریف پڑھی اور میں بھی ان کے ہمراہ بیت المقدَّس سے بستی کی طرف چل پڑا، ہم چلتے رہے یہا ں تک کہ اس نے کہا: '' اے سَرِّی سَقَطِی! ظہرکا وقت ہو گیا ہے توکیا نماز نہ پڑھ لیں؟'' میں نے کہا: ''کیوں نہیں۔''میں نے مِٹی سے تیمم کا ارادہ کیاتو اس نے کہا: ''یہا ں پانی کا ایک چشمہ ہے۔'' پھر وہ راستے سے کچھ ہٹا اور ایسے چشمے پر لے گیا جس کا پانی شہد سے بھی زیا دہ میٹھا تھا۔ میں نے وضو کیا اورپانی پی کر کہا:''اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! میں اس را ستے سے کئی مرتبہ گزرا لیکن پانی کا چشمہ یہاں کبھی نہیں پایا۔''
اس نے کہا: ''سب تعریفیں اللہ عزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جس نے اپنے بندوں پرکرم فرمایا۔ہم نے نمازِظہر ادا کی، پھر عصر تک چلتے رہے۔ پھر اچانک حجا زکے پہاڑ اور دیواریں ہمارے سامنے ظاہرہو گئے، میں نے کہا: ''یہ توحجازِ مقدس کی زمین ہے۔''