(تفسیرکبیر،سورۃ ال عمران،تحت الایۃ۱۳۸،ج۳ص۳۷0)
وعظ ونصیحت کی اہمیت وافادیت ایک مسلَّمہ(مُ ۔سَلْ۔ لَمَ۔ہ) حقیقت ہے۔ہردورمیں اس کی ضرورت پیش آئی ۔اس کے فوائدوثمرات بے شماروبے حساب ہیں۔ خوداللہ عَزَّوَجَلَّ نے قرآنِ مجیدفرقانِ حمیدکاایک نام موعظت یعنی نصیحت رکھا ہے۔
چنانچہ،ارشادباری تعالیٰ ہے:
(1) ہٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَہُدًی وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِیۡنَ ﴿138﴾
ترجمہ کنزالایمان:یہ لوگوں کوبتانااورراہ دکھانااورپرہیز گاروں کو نصیحت ہے۔(پ 4،ال عمران:138)
(2) یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْکُمۡ مَّوْعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمْ وَشِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیۡنَ ﴿57﴾
ترجمہ کنزالایمان:اے لوگو!تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آئی اوردلوں کی صحت اورہدایت اوررحمت ایمان والوں کے لئے۔(پ 11،یونس :57)
مفسرشہیر،صدرالافاضل ،فخرالاماثل حضرت علامہ مولانامفتی نعیم الدین مرادآبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی اس آیت مبارکہ کے تحت''خَزَائِنُ الْعِرْفَان''میں ارشادفرماتے ہیں:''اس آیت میں قرآن کریم کے آنے اوراس کے مَوْعِظَت( مَو۔عِ ۔ ظَت: یعنی نصیحت) وشفاوہدایت ورحمت ہونے کابیان ہے کہ یہ کتاب ان فوائدِعظیمہ کی جامع ہے ۔موعظت کے معنی ہیں وہ چیزجوانسان کومرغوب کی طرف بلائے،اورخطرے سے بچائے خلیل نے کہاکہ موعظت نیکی کی نصیحت کرناہے جس سے دل میں نرمی پیدا ہو ۔
(خزائن العرفان،سورۃ یونس ،تحت الایۃ۵۷)
وعظ ونصیحت حضرات انبیاء کرام ومرسلین عظام عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عظیم سنت ہے جس کوتمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے کمال کی بلندیوں پرپہنچایااورکیوں نہ ہوکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں جوامع الکلم عطافرمائے یعنی ایسے کلمات جوعبارت کے لحاظ سے مختصراورمعانی ومطالب کے لحاظ سے جامع ہوں۔بخاری شریف کی پہلی حدیث
(اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِاالنِّیَّات
یعنی اعمال کادارومدار نیتوں پر ہے۔(صحیح البخاری، ،الحدیث۱،ص۱))اس پرگواہ ہے ۔حضورنبی کریم، رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے وعظ ونصیحت کااندازانتہائی دلنشین ہواکرتا۔کبھی خوف خدا عَزَّوَجَلَّ کابیان ہوتاتوکبھی رحمتِ الہٰی عَزَّوَجَلَّ کی بشارتیں،کبھی جنت کی خوشخبریاں سناتے توکبھی دوزخ سے ڈراتے اورکبھی سابقہ امتوں کے حالات سے آگاہ فرماتے