حکایتیں اور نصیحتیں |
یَا مَالِکِیْ رِقِّیْ وَغَایَۃَ مَطْلَبِیْ رِفْقًا فَقَدْذَابَ الفُؤَادُ تَشَوُّقَا حَاشَاکُمُوْ اَنْ تَطْرُدُوْنِیْ سَادَتِیْ وَبِحُبِّکُمْ قَلْبِیْ غَدَا مُتَعَلِّقَا یَا سَادَتِیْ لَمْ یَہِنْ لِیْ مِنْ بَعْدِکُمْ عَیْشٌ وَلَا عَایَنْتُ شَیْئًا مُوْنِقَا اِنْ مِتُّ مِنْ وَجْدِیْ وَفَرْطِ صَبَابَتِیْ شَوْقًا اِلٰی رُؤْیَاکُمْ لَکُمْ الْبَقَا یَا نَفْسُ قَدْ زَالَ الْعَنَا فَتَمَتَّعِیْ بِوِصَالِ مَنْ تَھْوِی فَقَدْ زَالَ الشِّقَا وَجَلَا الْحَبِیْبُ جَمَالَہٗ فَلِاَجْلِ ذَا اَصْبَحْتُ مِنْ وَجْدِیْ بِہِ مُتَمَزِّقَا ھَاکُمْ فُؤَادِیْ فَتَشُوْہ، فَاِنْ تَرَوْا فِیْہِ لِغَیْرِکُمُوْ ھَوٰی وَتَشَوُّقَا فَتَحَکَّمُوْا فِیْہِ بِمَا یَرْضِیْکُمُو یَا مَنَیَّتِیْ اِنْ خَانَ یَوْمًا مُوْثِقَا وَاِذَا فَنَیْتُ بِحُبِّکُمْ فَیَحِقُّ لِیْ اِنَّ الْفَنَاءَ بِحُبِّکُمْ عَیْن الْبَقَا
ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔تم نے مجھے وصال اور ملاقات کا شرف بخشا پھر مجھے چھوڑ دیا تو میں محبت کی آگ میں جلنے لگا۔ (۲)۔۔۔۔۔۔اے میرے مالکو اور میرے مقصد کی انتہا! مہربانی فرماؤکیونکہ میرا دل شوقِ دیدار سے پِگھل رہا ہے۔ (۳)۔۔۔۔۔۔اے میرے سردارو! میں اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کرتا ہوں کہ تم مجھے دُھتکار دو کیونکہ میرے دل کو تم سے محبت ہو چکی ہے۔ (۴)۔۔۔۔۔۔اے میرے سردارو! تمہارے بعد میرے لئے کوئی مزا نہیں اور نہ ہی مجھے کوئی چیز دلکش لگی۔ (۵)۔۔۔۔۔۔اگر میں تیرے دیدار کی شدیدمحبت اوراپنے وجد سے مر جاؤں تو یہ تیرے لئے بقا ہے۔ (۶)۔۔۔۔۔۔اے نفس! اب مشقت اور شقاوت زائل ہوچکی ہے اس لئے تو اپنے محبوب کے وصال سے لطف اٹھا لے۔ (۷)۔۔۔۔۔۔حبیب نے اپنا جمال ظاہر کیا تو اس جمال کو دیکھ کرمیں اس کی محبت کی وجہ سے تار تار ہوگیا۔ (۸)۔۔۔۔۔۔(اے محبوبو!) یہ میرا دل حاضرہے، اگر اس میں اپنے غیر کی محبت پاؤ تو جلا ڈالو۔ (۹)۔۔۔۔۔۔اور اگر اس میں کسی اور کی محبت پاؤتواپنی مرضی کے مطابق جو چاہوسزا دو۔ ہائے کاش! میں مر جاؤں اگر میرا دل کسی دن(محبت کے) پختہ وعدے میں خیانت کرے۔ (۱0)۔۔۔۔۔۔اگر میں تمہاری محبت میں فنا ہو جاؤں تو میں اس کا سزاوار ہوں کیونکہ تمہاری محبت میں فنا ہونا حقیقت میں بقا ہے۔
بِکنے والا غُلام مجنون نہیں، مجذوب تھا:
حضرتِ سیِّدُنا عبدالرحمن بن مہذب رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرما تے ہیں: ''ایک دفعہ میں غلاموں کے بازار سے گزرا، دَلاَل کو دیکھا کہ وہ ایک غلام کوبیچتے ہوئے کہہ رہا تھا:''میں اس کو اس کے عیب پربیچتا ہوں۔'' میں نے دلال سے پوچھا: ''اس میں کیا عیب ہے ؟'' اس نے کہا: ''اسی سے پوچھ لیجئے۔'' میں نے غلام کے قریب جاکر اس سے دریافت کیا: ''تجھ میں کیا عیب ہے؟'' اس نے بتایا: ''اے میرے آقا! میرے عیوب بہت زیادہ ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ مَیں لوگوں میں کس عیب سے مشہور ہوں۔''