Brailvi Books

حکایتیں اور نصیحتیں
65 - 649
کیا تھاکہ چاند جیسی تین لڑکیاں آئیں، میں اُن سے دور ہو گیا اور قبر کی آڑمیں چھپ گیا تاکہ میں ان کی گفتگو سن سکوں۔ ان میں سے سب سے چھوٹی لڑکی آگے بڑھی اور قبرکے پاس رک کر کہا:
''اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ
آپ پرسلامتی ہو۔'' اے اباجا ن! آپ نے صبح کیسے کی؟ آپ اپنی آرا م گاہ میں کیسے ہيں؟ اور آپ کا اپنے ٹھکانے میں ٹھہرنا کیسا ہے؟ آپ ہما رے پا س اپنی محبت چھو ڑ کر چلے گئے اور آپ کی خبرگیری کرناہم سے منقطع ہوگئی، آپ پر ہمیں بہت زیادہ غم ہے اور آپ سے ملنے کا بہت شوق ہے۔'' پھر وہ بہت زیادہ روئی۔ اس کے بعد دوسری دونوں لڑکیاں آگے بڑھیں، سلام کرکے کہنے لگیں: ''یہ ہمارے اس باپ کی قبر ہے جو ہم پر بہت شفیق اور بہت مہربان تھا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کواپنی رحمت سے خوش رکھے، آپ کو اپنے عذاب کے شر اور سزا سے بچائے ۔ اے ابا جان! ہمیں آپ کے بعد ایسی تکالیف اور غم لاحق ہوئے کہ اگر آپ انہیں دیکھ لیتے تو غمگین ہو جاتے اور اگر آپ ان سے آگاہ ہو جا تے تو وہ آپ کورنجیدہ خاطر کردیتے۔ مَردوں نے ہمارے چہروں کو بے پردہ کر دیا ہے جنہیں آپ ڈھانپا کرتے تھے۔''

    حضرتِ سیِّدُناحا رث رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ''ان کی یہ باتیں سن کر مجھے رونا آگیا پھر میں تیزی سے ان کے پاس گیا اورسلام کرنے کے بعدکہا:'' اے لڑکیو! بے شک بعض اوقا ت اعمال قبول کئے جا تے ہیں اور بعض اوقات رد کر دیئے جاتے ہیں، میں اس قبرمیں رہنے والے تمہارے باپ کے اعمال کو دیکھ کر دکھ میں مبتلا ہوگیا ہوں اور برے اعمال کے سبب اس کی عبرت ناک حالت نے مجھے مزید غمزدہ کردیاہے۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرما تے ہیں کہ جب ان لڑکیوں نے میری گفتگو سنی تو کہنے لگیں: ''اے اللہ عزَّوَجَلَّ کے نیک بندے! آپ نے کیا دیکھا؟ میں نے بتایا: ''میں تین دن سے بار بار یہاں آرہا ہوں اور لوہے کے گُرْز اورزنجیروں کی آواز سنتا ہوں۔'' جب انہوں نے یہ سنا تو کہنے لگیں: ''اس سے بڑھ کر بھی کوئی دکھ اور مصیبت ہو سکتی ہے کہ ہم اپنی حاجات کو پورا کرنے اور گھروں کو آباد کرنے میں مشغول ہیں جبکہ ہمارے باپ کو آگ کا عذاب دیا جا رہا ہے۔ اللہ عزَّوَجَلَّ کی قسم! ہمیں چین آئے گا،نہ نیند اور نہ ہی صبر یہا ں تک کہ ہم اللہ عزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں گریہ وزاری کریں گی، شاید! وہ ہمارے باپ کو آگ سے آزاد کر دے۔'' پھر وہ اپنی چادروں میں گرتی پڑتی چلی گئیں۔

    حضرتِ سیِّدُناحارِث رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ''میں گھر لوٹا اور را ت گزاری۔ جب صبح ہوئی تو میں پھرقبر کے پاس چلا گیا اور اسی شخص کی قبر کے پاس بیٹھ کراس کے حال کے متعلق غور وفکر کرنے لگاکہ اچانک مجھ پر نیند کا غلبہ ہوا اور میں سو گیا، میں نے قبروالے کوحسین وجمیل صورت میں دیکھا، اس کے پاؤں میں سونے کے جوتے ہیں اور اس کے پاس خُدَّام اورغلام ہیں۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کو سلام کیا اور کہا: ''اللہ عزَّوَجَلَّ آپ پر رحم کرے ،آپ کون ہیں ؟''اس نے جواب دیا: ''میں وہی شخص ہوں جس کے معاملہ کو دیکھ کرآپ غمگین ہو گئے تھے، اللہ عزَّوَجَلَّ آپ کوجزائے خیر عطا فرمائے ( آ مین ) ۔''
Flag Counter