اُمیدیں دنیا میں باندھ رکھی تھیں، لیکن ان امیدوں میں بھی بہت سے تو شیطانی وسوسے تھے، اے انسان! سن لو! میں نہیں جانتا کہ تمہاری قبر کہاں ہو گی؟ اوروہ جو بڑے دانا اور عقل مند ہیں ان کی قبر کہاں ہو گی؟ بس اتنا جان لو کہ سب کو مٹی تلے تنہائی ووحشت کے گھر میں بسیرا کرناہے، ہائے! وہ لوگ جو ہمیشہ امید ونااُمیدی کی درمیانی کیفیت سے دوچار رہے، اگر دنیا میں رہ جانے والے مال ومتاع میں بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے والے لوگ عقل رکھتے تو (اس فانی دنیامیں) کبھی ایک دوسرے سے مقابلہ نہ کرتے۔''
حضرتِ سیِّدُنا یزید رقاشی علیہ رحمۃاللہ الکافی اپنے آپ سے فرمایا کرتے تھے:''ہلاکت ہو تجھ پر اے یزید! تیرے مرنے کے بعد کون تیری طرف سے نما ز پڑھے گا؟ کون روزے رکھے گا؟کون وضو کریگا؟'' پھر فرماتے: ''اے لوگو! تم اپنی بقیہ زندگی میں اپنے آپ پر کیوں نہیں روتے؟ وہ شخص جس سے موت کا وعدہ کیا گیا ہو، جس کا گھر قبرہو، جس کا بچھونا مٹی ہو، اور جس کے ساتھی کیڑے مکوڑے ہوں اور اس کے سا تھ ساتھ وہ بڑی گھبراہٹ کے دن کا بھی انتظا ر کر رہا ہو تو اس کا حا ل کیسا ہو گا؟ اور اس کا انجام کیسا ہو گا؟'' پھر آپ رونے لگ جاتے یہا ں تک کہ بے ہوش ہو کر زمین پر تشریف لے آتے۔''
مروی ہے کہ ایک عورت نے اُم المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہا سے قساوتِ قلبی (یعنی دل کی سختی)کا ذکر کیا تو آپ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ارشاد فرمایا: ''موت کو کثرت سے یاد کیا کر تیرا دل نرم ہو جا ئے گا۔'' جب ا س عورت نے ایسا کیا تو اس کا دل نرم ہو گیاپس اس نے اُم المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عا ئشہ صدیقہ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہا کا شکریہ ادا کیا۔''
حضرتِ سیِّدُناابودرداء ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ بیما ر ہو گئے تو لوگوں نے عرض کی :''کسی چیز کی خواہش ہو توفرمائیے۔'' آپ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: ''جنت کی۔''تو انہوں نے پھرعرض کی :''کیا ہم آپ کے لئے طبیب لا ئیں ؟''توآپ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: ''طبیب نے ہی تو مجھے مرض لاحق فرمایا ہے۔'' آپ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کسی دوست نے عرض کی: ''اے ابودرداء! کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ رات بھر جاگتا رہوں؟'' تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: ''تمہیں مرض سے عافیت ہے جبکہ میں مرض میں مبتلاہوں، لہٰذاعافیت تمہیں جاگنے نہیں دے گی اور بَلامجھے سونے نہیں دے گی۔ پھر فرمایا: ''میں اللہ وحدَہٗ لاشریک کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ اہلِ عافیت کو شکر اور اہلِ بَلا کو صبر کی توفیق عطا فرمائے۔''(آمین)
ایک خطبے میں ہے: ''اے لوگو! اُمیدیں لپیٹ دی جائیں گی، عمریں فنا ہو جائیں گی، جسم مِٹی کے نیچے بوسیدہ ہو جا ئیں گے، جبکہ رات اور دن (موت کے )قا صد کی طرح تیزی سے دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ ہر دُور کو قر یب کرتے اورنئے کو پرانا کرتے ہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے تو وہ ہيں جوخواہشا ت سے غافل، لذات سے کنارہ کش اور باقی رہنے والے اعمال کی طرف راغب ہوتے ہیں۔''